تھرڈ آپشن سے حکومت تک اور اب پھر وہی پرانا نعرہ

کرپشن کا خاتمہ اور لوٹا ہوا پیسہ واپس لانا، پچھلے انتخابات میں یہ پی ٹی آئی کا انتخابی نعرہ تھا، بدقسمتی سے ساڑھے تین سال تک حکومت کے باوجود آج بھی پی ٹی آئی کا معاشی پروگرام یہی ہے

عمران خان کو دو پارٹی سسٹم کے خلاف تھرڈ آپشن کے طور پر سیاست میں لانچ کیا گیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ نوجوانوں کی آواز بن گئے، انہیں نوجوانوں، خواتین اور شوبز کے حلقوں میں اب بھی پسند کیا جاتا ہے، اسی بنا پر وہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف کو لانچ کرنے کا مقصد چونکہ دو پارٹیوں کی اجارہ داری ختم کرنا تھا اس لئے مقتدر حلقوں کی جانب سے انہیں ہر طرح کی سپورٹ کی گئی، عمران خان نے پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے قائدین کا نام لے کر ان پر کرپشن کے الزامات لگائے اور اپنے چاہنے والوں کو کہا کہ اگر ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس آ جائے تو ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے اس مقصد کیلئے انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو قوم کا پیسہ واپس لائیں گے۔

ان کے حمایتیوں سمیت عوام کی بڑی تعداد اس دعویٰ کو سچ سمجھنے لگی۔ دیکھا جائے تو کرپشن کے خلاف عمران خان کا نعرہ اتنا مضبوط تھا کہ انہیں خاموش اکثریت کی حمایت ملنا شروع ہو گئی۔ یہ نعرہ اس قدر مؤثر ثابت ہوا کہ اسے تحریک انصاف کا معاشی پروگرام سمجھا جانے لگا۔ مطلب یہ کہ بیرونی بینکوں میں پڑی رقم واپس آنے سے ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے، دوسری طرف اس نعرے کا نقصان یہ ہوا کہ تحریک انصاف کی قیادت بالخصوص حکومت میں شامل وزراء نے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں کام کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی، کیونکہ انہیں تسلی تھی کہ بہت جلد بیرونی بینکوں سے پاکستانی قوم کا پیسہ واپس آنے والا ہے۔ یہ معاشی تھیوری بری طرح ناکام ہوئی، ایک دھیلہ واپس نہیں آ سکا الٹا وقت ضائع کر دیا گیا۔

جو قوتیں عمران خان کو موقع دینا چاہتی تھیں وہ بظاہر کامیاب ہو گئیں، انہیں ایک موقع دے دیا گیا بلکہ خیبرپختونخوا میں تو دو بار موقع ملا، اس دوران عمران خان کا معاشی ویژن آشکار ہو گیا، ملکوں کی تعمیر نعروں سے نہیں ہوتی ہے اس کیلئے ایک ایک اینٹ کو نہایت سمجھداری سے رکھنا پڑتا ہے۔ خان صاحب کا جو انداز پہلے تھا اب بھی وہی ہے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا، حیرت ہے کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے کہ بھائی آپ کے پاس ملک کو مالی بحران سے نکالنے کا پروگرام کیا ہے؟ یہ کہہ دینا مسائل کا حل نہیں ہے کہ دوسری جماعتوں نے کون سا تیر مار لیا ہے،آخر کب تک دوسروں کی برائیوں پر محلات کھڑے کرتے رہیں گے؟ اگر دوسری جماعتوں نے غلط بیانی کی ہے تو ان سے بھی پوچھا جانا چاہئے مگر آپ نے تو لوگوں کو امید دلائی تھی آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ دوسروں سے مختلف ہیں، آپ بھی اسی رنگ میں رنگ گئے ہیں تو کم از کم اعتراف تو کریں۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ خان صاحب ایک مخصوص حلقے میں پسند کئے جاتے ہیں وہ عوام کی آواز نہیں بن سکے، عام شہری کے آواز بنے بغیر کوئی بھی لیڈر عوامی مقبولیت کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کو قائد عوام کہا جاتا ہے تو اس کی وجوہات ہیں۔ محض زبان کے لہجے اور تلخی کی وجہ سے بہت سے لوگ ان سے دور ہو گئے، یہ درست ہے کہ خان صاحب کی جان کو خطرہ ہے مگر جس طرح وہ بالٹی نما حفاظتی بکس پہن کر اور سیکورٹی گارڈ کے حصار میں عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں یہ ان کی اپنی باتوں کے خلاف ہے جس میں وہ دوسرے رہنماؤں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

اگر عمران خان عام انتخابات کیلئے کوئی نیا نعرہ پیش نہیں کر سکے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اسی طرح اگر ان کے چاہنے والے کچھ پوچھے بغیر ان کی باتوں پر یقین کرکے ان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں تو جان لیں کہ عمران خان قوم کو شعور دینے کا جو دعویٰ کرتے رہے ہیں اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ خان صاحب اس سے پہلے تھرڈ آپشن تھے، مگر اب نہیں ہیں، وہ لوگوں کی امید تھے مگر اب بہت سے لوگ ان سے ناامید اور مایوس ہو چکے ہیں۔ من حیث القوم یہ المیے کی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس الیکشن میں جانے کیلئے کوئی نعرہ نہیں ہے جسے عوام کے سامنے پیش کر کے ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ ملک کی تعمیر افراد کی تعمیر کے بغیر ممکن نہیں ہے افراد کو شعور دیئے بغیر ترقی کا خواب دیکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

سید ذیشان علی کاظمی

سید ذیشان علی کاظمی صحافی ہیں، وہ گزشتہ 15 برسوں سے حالات حاضرہ، سیاسی، سماجی اور معاشی موضوعات پر لکھ رہے ہیں اس ای میل ایڈریس zeshansyedkazmi@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Back to top button