مذاکرات: یہ معرکہ سیاستدانوں سے سر نہیں ہونے والا!

سیاسی بحران خاتمے کیلئے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جس کے دو ادوار ہو چکے ہیں منگل دو مئی کو تیسرا دور ہونا ہے۔ جمود اور گھٹن کے ماحول میں مذاکرات کا شروع ہونا خوش آئند امر ہے مگر کیا مذاکرات کامیاب ہو پائیں گے یا یہ عمل وقت کا ضیاع ثابت ہو گا؟ اگر اہل سیاست باہم گفت و شنید سے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ بڑی بدقسمتی ہو گی۔ ہمارے خدشات کی وجہ سیاسی قائدین کے وہ بیانات ہیں جو مذاکرات کے دوران دے رہے ہیں، فریقین اپنی اپنی شرائط پر بات کرنا چاہتے ہیں اس سے کبھی بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مذاکرات کی ناکامی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ قیادت اس میں شامل نہیں ہے، حالانکہ تنازعات اعلیٰ قیادت کے درمیان ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر ہدایات جاری کر رہے ہیں، ان کی طرف سے نامزد مذاکراتی کمیٹی پل پل کی خبر انہیں دے رہی ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ مسلم لیگ ن کی مذاکراتی کمیٹی محض پیغام رسانی تک محدود ہے، اسی طرح پی ٹی آئی اور دوسری جماعتوں کی طرف سے مذاکرات کیلئے نامزد افراد کی صورتحال ہے، وہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے رہنما جب مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو لازمی طور پر گلے شکوے بھی ہوں گے، ہونے بھی چاہئے تاکہ دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے، اس طرح کے مذاکرات میں بالعموم خبریں باہر نہیں آتی ہیں اور جب خبریں آتی ہیں تو معاملات فائنل ہو چکے ہوتے ہیں۔ حالیہ مذاکرات میں مگر اس بات کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے، فریقین میڈیا پر آ کر پل پل کی خبر دے رہے ہیں جس سے ماحول ناساز گار ہو رہا ہے حالانکہ وسیع تر مفاد کو سامنے رکھ کر مذاکرات کئے جا رہے ہیں پاکستان کا مستقبل ان مذاکرات سے جڑا ہے، کیونکہ مذاکرات کی ناکامی ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دے گی۔ سیاسی جماعتیں ملک کے مستقبل سے بے نیاز ہو کر اپنے مفاد کی اسیر نظر آتی ہیں ان کا ہر قدم اپنی سیاست کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہ اہل سیاست کا ہی کیا دھرا ہے کہ پچھلا ایک سال ہم تیزی کے ساتھ تنزلی کے گڑھے میں جا گرے ہیں۔ جتنا نقصان پچھلے 75برسوں میں نہیں ہو سکا اس سے کئی گنا زیادہ نقصان محض تین چار برسوں میں ہو گیا ہے۔

آپ ڈالر کی قیمت کو ہی دیکھ لیجئے، عوامل جو بھی ہوں متاثر تو ملک اور عوام ہوئے ہیں۔ 2013 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہوئی اور مسلم لیگ ن نے حکومت سنبھالی تو ڈالر 98روپے پر کھڑا تھا، مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ دور میں ڈالر کی قیمت میں 17روپے کا اضافہ ہوا، مسلم لیگ ن نے مئی 2018 میں حکومت چھوڑی تو ڈالر کی قیمت 115روپے تھی نگران حکومت کے دور میں اس میں اضافہ ہوا ڈالر 123روپے کا ہو گیا، پاکستان تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے سے پہلے ڈالر کا ریٹ 115روپے مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے جبکہ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ جب نگران حکومت ختم ہوئی تب ڈالر 123روپے کا تھا، بہر حال اگر 123 کا حساب لگایا جائے تو جب اپریل 2022 کو پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی تب ڈالر 190روپے کا تھا، پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دور میں ڈالر کی قیمت میں 67روپے کا اضافہ ہوا، تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے ڈالر 200سے تجاوز کر گیا۔ اب ایک سال میں ڈالر 290 پر کھڑا ہے مطلب یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے ایک سال میں ڈالر کی قیمت میں 100روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت کے ساتھ معیشت اور قرضوں کا گہرا تعلق ہے۔ ہر چیز کو ڈالر پر قیاس کر کے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام اہل سیاست کے تجزبات کی کتنی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔

بدقسمتی کی بات ہے کہ آج ہمارے ہاں جتنی قیمت میں موٹر سائیکل لینا دشوار ہے اس سے کم قیمت میں بھارت اور دیگر پڑوسی ممالک میں اچھی گاڑی خریدی جا سکتی ہے، پاکستانی روپے کی گراوٹ نے ہمیں معاشی طور پر حد سے زیادہ کمزور کر دیا ہے، جس کی تمام تر ذمہ داری اہل سیاست پر عائد ہوتی ہے، اس بحران سے نکالنا اہل سیاست کا فرض ہے مگر مذاکرات کے عمل کو دیکھ کر کہیں سے دکھائی نہیں دیتا کہ ارباب اختیار کو ملک کے مسائل کی فکر ہے۔ اہل سیاست نے اپنی روش نہ بدلی اور لچک کا مظاہرہ نہ کیا تو ہمارا شمار بھی کمزور اور پسماندہ ترین ممالک میں ہونے لگے گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں

سید ذیشان علی کاظمی

سید ذیشان علی کاظمی صحافی ہیں، وہ گزشتہ 15 برسوں سے حالات حاضرہ، سیاسی، سماجی اور معاشی موضوعات پر لکھ رہے ہیں اس ای میل ایڈریس zeshansyedkazmi@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Back to top button