اسرائیل تحریک انصاف کی سیاست کا محور بن گیا
عمران نیازی کی حکومت نے جہاں سکھوں کے لیے کرتا رپورہ راہداری کھولی، ہندوؤں کے لیے درجنوں پرانے مندر بحال کیے وہاں پاکستانی یہودیوں کے لیے اسرائیل جانے کا راستہ بھی ہموار کیا۔ ایک منصوبے کے ساتھ یہ گھنائونا کھیل کھیلا گیا اور آج عمران نیازی اس تمام منصوبے سے اپنے آپ کو ایسے نکال رہے ہیں کہ جیسے ان کے دور میں کچھ ہوا ہی نہیں۔
ہماری قوم بھی بہت جلد بھول جاتی ہے میں یادہانی کے لیے چند واقعات لکھ رہا ہوں تاکہ سند رہے۔ دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں کس طرح اسرائیل نوازی کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے اسرائیل کی طرف سب سے پہلے یہ پیش قدمی کی کہ پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی اسما حدید11نومبر2018ء کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہودیوں کا قبلہ بیت المقدس ہے، مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے، تاہم اب مسلمانوں اور یہودیوں میں اس معاملے پر لڑائی ختم ہو جانی چاہیے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو نماز کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھنے کا حکم دیا لیکن جب یہودیوں کے اعتراض پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یروشلم کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دے دیا۔ پھر اللہ کی طرف سے جب حکم آ گیا کہ جس میں اللہ نے فیصلہ کر دیا کہ یہودیوں کا کعبہ یروشلم مسجد اقصی ہو گا۔ جبکہ مسلمانوں کا کعبہ ہو گا جو عرب میں ہے۔ اس لیے اب مسلمانوں اور یہودیوں کی لڑائی اس معاملے پر تو ختم ہو جانی چاہیے۔
نبی پاک صلی علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے دشمن کو دوست بنا لو۔ نبی پاک نے یہودیوں کے ساتھ کام کرکے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ اسماء حدید کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے اس پر اگر عمران نیازی کی طرف سے کوئی سرزنش کی گئی ہو تو ضرور آگاہ کیجیے گا۔ اسرائیل کی طرف دوسری پیش قدمی یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک یہودی فشیل بن خالد کو پاسپورٹ جاری کیا اور بعدزاں اسے پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کے سفر کی اجازت بھی دی۔
جنوری2019ء میں دی نیوز میں سینئر صحافی عمر چیمہ نے یہ رپورٹ شائع کی کہ پی ٹی آئی حکومت نے31 سالہ فشیل خالد کو نہ صرف اسرائیل کا سفر کرنے کی اجازت دی ہے۔ بلکہ اس اجازت کی تشہیر کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ ایسا ایک اسرائیلی طیارے کی اسلام آباد آمد کے تین ماہ کے اندر ہوا ہے۔فشیل خالد کراچی کا رہائشی اور اپنے مذہبی عقائد کا کھل کر اظہار کرتا ہے۔ اس کے والد مسلمان اور ماں یہودی ہیں۔ اس نے خود یہودیت اختیار کی۔ اس نے نادرا میں خود کو یہودی رجسٹرڈ کرایا۔ اس کے باقی چار بھائی مسلمان ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہی فشیل خالد ہے جس نے حال ہی میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے ہمراہ اسرائیل کادورہ کیا ہے۔
تیسری پیش قدمی یہ ہے کہ اسرائیلی اخبار اسرائیل ہایوم جو اسرائیل کا سب سے بڑا اخبار ہے اور عبرانی زبان میں شائع ہوتا ہے اس نے جون 2021ء میں یہ دعویٰ کیا کہ وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی نے گذشتہ برس مبینہ طور پر اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا تھا۔ اور وزیر اعظم کے اس وقت کے معاون خصوصی نے مبینہ طور پر نومبر2020 ء میں تل ابیب ایئرپورٹ پر اسرائیلی حکام سے ملاقات کی تھی۔ برطانوی پاسپورٹ رکھنے والے نامعلوم مشیر کو اسرائیل کی وزارت خارجہ لے جایا گیا جہاں انہوں نے متعدد سیاسی عہدیداران اور سفارت کاروں سے ملاقات کی اور پاکستان کے وزیر اعظم کا پیغام پہنچایا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی اخبارنے یہ لکھا کہ اسرائیلی سیکورٹی اداروں نے معاون خصوصی کانام شائع کرنے کی کلیئرنس نہیں دی ۔ بعدازاں اس حوالے سے زلفی بخاری کانام سامنے آیا اگرچہ انہوں نے اس کی تردید کی تھی مگر اخبار اپنے دعوے پر قائم رہا۔ چوتھی پیش قدمی یہ تھی کہ مولانا محمدخان شیرانی جو آج کل پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی ہیں نے دسمبر2020ء میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ واضح رہے کہ اس بیان کے بعد مولانا فضل الرحمن نے انہیں جماعت سے نکال دیا تھا اور پی ٹی آئی حکومت نے مولانا شیرانی اور ان کے ساتھیوں کو چھتری فراہم کی تھی۔
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ مغربی حصے میں اسرائیلی اور مشرقی حصے میں فلسطینی ریاست ہونی چاہیے۔ مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ فلسطین خلافت عثمانیہ کی ملکیت تھی اس نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، عربوں کا مقدمہ تھا انہوں نے بھی مان لیا ہے لیکن ہزاروں کلومیٹر دور اس مسئلے پر خوامخواہ کی جذباتی باتیں کی جا رہی ہیں جو غیر معقول ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ بے مقصد کی خون ریزی اور جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
میں اس بات کے حق میں ہوں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جانا چاہیے کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مسئلہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی اور بین الاقوامی ہے۔ مولانا شیرانی نے اس بیان سے تاحال رجوع نہیں کیا ہے۔ پانچویں پیش قدمی یہ تھی کہ ملکی تاریخ میں یہ بھی پہلی مرتبہ ہواکہ 2019ء میں ایک پاکستانی خلیل الرحمن کا نام تبدیل کر کے ڈیوڈآریل (David Ariel) سے شناختی کارڈ جاری کیا خلیل الرحمن یہودیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان اسرائیل الائنس کے بانی رکن ہیں۔
چھٹی پیش قدمی یہ ہے کہ اسی خلیل الرحمن نے اپریل 2020ء میں نیشنل پریس کلب کے سامنے اسرائیلی جھنڈے کے ساتھ دو ہفتے احتجاجی کیمپ لگایا جس میں مطالبہ کیا کہ پاکستانی پاسپورٹ سے اسرائیل کے خلاف نفرت آمیز الفاظ ختم کیے جائیں تاکہ پاکستانی بآسانی اسرائیل جا سکیں۔ آج تک پی ٹی آئی کا کوئی رہنماء اور عمران نیازی اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ 2016ء میں لندن میئر کے الیکشن میں عمران خان نے مسلمان امیدوار صادق خان کے مقابلے میں زیگ گولڈ سمتھ کی انتخابی مہم کیوں چلائی؟ زیک سمتھ ایک کٹر یہودی اور اسرائیل کا سخت ترین حامی شمار ہوتا ہے۔ 2019ء میں امریکی صدر سے عمران خان کی ملاقات میں بھی ٹرمپ کے یہودی داماد جارڈ کشنر نے اہم کردار ادا کیا کبھی کسی نے سوچا کہ یہودیوں کی عمران خان پر اور عمران نیازی کی ان پر نوازشات کی کیا وجہ ہے؟
اسرائیل کی طرف یہ بھی پیش قدمی ہوئی کہ اسی ٹرمپ اور اس کے یہودی داماد نے عربوں کورام کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے ابراہم اکارڈ کا وہ معاہدہ کیا جو اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کے درمیان اگست 2020 میں طے پایا۔ مگر عمران نیازی نے اس معاہدے کی مذمت تک نہیں کی بلکہ درپردہ اس معاہدے کو سپورٹ کیا۔ گزشتہ روز اسرائیلی صدرآئزک ہرزوگ نے کہا کہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا اور ان سے ملاقات ہوئی ملاقات اسی ابراہم معاہدے کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔
اس خبرکے بعد عمران نیازی نے کہا کہ ایک تصویرآئی ہے کہ ایک پاکستانی وفد پہلی بار اسرئیل گیا ہے، جس میں ایک پاکستانی ٹیلی ویژن میں کام کرنے والا تنخواہ دار بھی شامل ہے، اور حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہی ہے۔ عمران نیازی جواب دیں گے کہ اس صحافی کو پی ٹی وی میں کس کے دور میں رکھا گیا تھا؟ صحافی احمد قریشی نے کہا ہے کہ دورے میں شامل ایک پاکستانی نیازی حکومت کی اجازت سے گیا تھا یہ وہی یہودی فشیل خالد ہے جسے نیازی دور حکومت میں اسرائیلی سفر کی اجازت دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ عمران نیازی نے ایک یہودی کو پاسپورٹ جاری کرنے اور اسرائیلی سفر کی اجازت دینے کی تردید نہیں کی ہے۔ یہ سب کچھ عمران نیازی کے دور حکومت میں ہوا اور آج وہ الزام لگا رہے ہیں کہ حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہی ہے؟ اسرائیل اور یہودیوں کے حوالے سے عمران نیازی نے جو نوازشات کی ہیں وہ اسرائیل تسلیم کرنے کی طرف پیش قدمی نہیں تو اور کیا تھا؟
اس حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی دورے کا اہتمام ایک غیر ملکی این جی او نے کیا تھا جس کا پاکستان میں کوئی دفتر نہیں، مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا مؤقف واضح اور غیر مبہم ہے اور اس حوالے سے ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، یوتھیے اسرائیلی دورہ کرنے والے ارکان کے مریم نواز اور احسن اقبال کے ساتھ تصاویر شیئر کر کے یہ تاثردے رہے ہیں کہ موجودہ حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہی ہے حالانکہ اسرائیلی دورہ کرنے والے ان ارکان کی پی ٹی آئی کے رہنماء علی زیدی اور دیگر کے ساتھ بھی تصاویر موجود ہیں مگر یوتھیے کمال منافقت سے اس کا اظہار نہیں کرتے۔ اگر تصاویر والا معاملہ دیکھا جائے تو پھر زیک گولڈ سمتھ اور ٹرمپ کے داماد کے ساتھ نیازی کی تصاویر کا کیا جواز پیش کریں گے کیا وہ کعبہ کی حفاظت کے لیے ان سے مشورہ کر رہا تھا؟