یاسین ملک کو مشکل میں تنہا نہ چھوڑیں

کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کو بھارتی عدالت نے ایک ایسے مقدمے میںدو بار عمر قید کی سزا سنائی ہے جو دنیا بھر کے قانونی ماہرین کے نزدیک عدل سے انحراف کے مترادف ہے کیونکہ بھارت کی جانب سے بزور طاقت کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے بعد کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ کشمیریوں کا بنیادی حق ہے جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے، اقوام متحدہ کی قرار دادیںاس کا بیّن ثبوت ہیں۔

پاکستان نے یاسین ملک کی سزا کا معاملہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، بظاہر یہ اچھا اقدام ہے سرے دست یہی کیا جا سکتا ہے لیکن اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بھارتی عدالت کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھانے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے نہ ہی بھارت اسے خاطر میں لائے گا، اقوام متحدہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں سے متعلق اپنے مبصر وفد بھیجے مگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹا رہا، اس لئے یہ خیال کرنا کہ یاسین ملک کی سزا کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ہماری آواز پر کوئی شنوائی ہو سکے گی تو یہ خام خیالی ہے۔

جب بھارت کی جانب سے پانچ اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تو پاکستان کی طرف سے کوئی ٹھوس ردعمل نہیں آیا، اب بھارت کشمیر کو اپنا حصہ سمجھ کر اقدامات اٹھا رہا ہے، بھارت اپنے تئیں یہ سمجھنے لگا ہے کہ اب اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے، یاسین ملک کے خلاف بھارتی عدالت کی سزا بھی اسی زعم کا حصہ ہے، ہماری سول و عسکری قیادت کو مسئلے کا ادراک کرنا ہو گا۔

پاکستان واحد ملک ہے جو کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کر سکتا ہے، تاہم جب بھارتی عدالت کی طرف سے یاسین ملک کو سزا سنائی گئی تو روایتی مذمت سے زیادہ احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا گیا، بلکہ میڈیا پر بھی بھرپور کوریج نہیں مل سکی کیونکہ اس دن میڈیا کا فوکس تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر تھا۔ ہم اس بحث میں نہیں الجھتے کہ عمران خان نے لانگ مارچ کی تاریخ ایک دن آگے کیوں نہ کی، اب جبکہ لانگ مارچ گزر چکا ہے تو سیاسی قیادت یکساں طور پر احتجاج ریکارڈ کرا دے مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ہم سیاسی مفاد سے بالا ہو کر سوچنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

یاسین ملک کو بہت ہی کمزور مقدمے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے، انہوں نے جج کے سامنے جو سوالات اٹھائے ہیں جج کے پاس ان کا جواب نہیں تھا اسی لئے جج نے کہا کہ اب سوالوں کا وقت گزر چکا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کشمیر حل طلب مسئلہ ہے اسی طرح حریت رہنما یاسین ملک کے سوالات بھی بھارت کا پیچھا کرتے رہیں گے، اگر یاسین ملک واقعی دہشگرد ہیں تو پھر انہیں بھارتی سرکار نے پاسپورٹ کیوں جاری کیا، اگر ان کا قصور ناقابل معافی جرم تھا تو سات بھارتی وزراء اعظم مختلف اوقات میں ان کے ساتھ کیوں ملتے رہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت کے تعلیمی اداروں میں ان کے لیکچر کیوں ہوتے رہے۔

روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یاسین ملک کو راستے سے ہٹانے کیلئے سزا سنائی گئی ہے، جس کا مقصد یہ تھا کہ کشمیری آزادی کے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائیں، سزا سناتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ اگر قید سے زیادہ سزا سنائی گئی تو ہو سکتا ہے حالات ان کے قابو سے باہر ہو جائیں سو مقصد پورا کرنے کیلئے عمر قید کی سزا سنا دی گئی تاکہ تمام عمر جیل میں گزار دیں۔

یاسین ملک اپنی اکلوتی بیٹی رضیہ سلطانہ کے ساتھ

بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ جب بھارت کمزور مؤقف کے باوجود کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے تو ہم مضبوط مؤقف کے باوجود کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے کیوں ڈر رہے ہیں؟ پاکستان کے ارباب اختیار جس انداز سے کشمیریوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں اس سے کبھی بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکے گا، ہمیں روایتی مذمت سے آگے بڑھ کر سوچنا ہو گا، ہندو بنیے کو اسی زبان میں جواب دینا ہو گا جو وہ سمجھتا ہے، معذرت خواہانہ رویے سے اگر کچھ حاصل ہونا ہوتا تو بہت پہلے حاصل ہو چکا ہوتا۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن کو عالمی عدالت سے قانونی سپورٹ مل سکتی ہے تو حریت رہنماء یاسین ملک کا مقدمہ عالمی عدالت میں کیوں نہیں پیش کیا جا سکتا، فرق یہ ہے کہ کلبھوشن کو بچانے کیلئے بھارت جس طرح کوشش کر رہا ہے ہم یاسین ملک کو بچانے کیلئے ویسا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں، بھارت عالمی سطح پر لابنگ کر کے اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے حیرت ہے بہت سے یورپی ممالک بھارت کے مؤقف پر اعتبار بھی کرتے ہیں ہمیں بھی عالمی سطح پر دوست ممالک کو ساتھ ملا کر اپنا مؤقف پیش کرنا چاہئے۔ ہمیں یاسین ملک کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہئے، پاکستان جو سفارتی و اخلاقی سپورٹ فراہم کر سکتا ہے وہ فراہم کرنے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہئے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button