اسلام، عوام اور پاکستان کے نعرے پر اتفاق
ملک سیاسی افراتفری کاشکار ہے، سیاسی کشیدگی اپنی انتہائوں کوچھو رہی ہے، ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہے، مرنے مارنے کے اعلانات ہو رہے ہیں، غداری اور باغی کے سرٹیفکیٹ بانٹے جا رہے ہیں، میر جعفر اور میرصادق کے القابات دیے جا رہے ہیں، سیاسی محاذ آرائی عروج پرہے۔ افراتفری اور انتشار کی فضاء ہے، عدم برداشت خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے، بدکلامی ہاتھا پائی کی صورت اختیار کر رہی ہے، فریقین ایک دوسرے پر رکیک حملے کر رہے ہیں، مخالف قیادت کو برے القابات سے نوازا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کی رگوں میں زہر گھولا جا رہا ہے۔
دوسری طرف دشمن بھی سرگرم ہے ملک دشمن قوتوں کے حملوں میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے۔ مہنگائی کے مارے عوام پریشان ہیں کدورتوں اورنفرتوں میں اضافہ ہو گیا ہے، منافرت اور انتشار پھیل رہاہے، ہر طرف مایوسی ہے۔ انسان ایسی تاریک اور بند گلی میں کھڑا ہے کہ عام آدمی کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ وہ کیا کرے، کس طرف جائے، کس کے پیچھے چلے؟
ذہن میں ان سوالوں کا بوجھ اٹھائے مرشد کے آستانے پر حاضر ہوا کیوں کہ مرشد صرف روحانی راہنما ہی نہیں ہوتا بلکہ روحانی تربیت بھی کرتا ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ کے روح رواں، خادم الامت، فقیہ النفس حضرت پیرسید نور زمان نقشبندی شاذلی کی محفل ایسی ہے کہ جہاں روح کو سکون ملتا ہے۔ جو بھی با ادب ہو کر درویش کے در پر فیض کی نیت سے حاضر ہوتا ہے وہ خالی جھولی بھر کر بامراد ہو کر واپس جاتا ہے، اندھوں کو بینائی گونگوں کو گویائی باادب لوگوں کو ہی نصیب ہو تی ہے۔
مرشد وہ ذات ہوتی ہے جو مرید سے زیادہ مرید کے فائدے کو جانتی ہے کیونکہ جس راستے سے مرید گزرنا چاہتا ہے، وہ اس راستے سے گزر چکی ہوتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ناپاک زمین کے پاک ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اتنی بارش برسے کہ گندگی کو بہالے جائے۔ دوسرا اتنا سورج چمکے کہ نجاست کو جلا دے اور اس کا نام و نشان مٹا دے۔ اسی طرح قلب کی زمین کے لئے دو چیزیں ہیں۔
ایک ذکر الہی جس کی مثال بارش کی سی ہے۔ دوسرا شیخ کامل جس کی مثال سورج کی سی ہے۔ ذکر سے دل صاف ہوتا ہے اور شیخ کامل کی توجہات سے بھی۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں کامل مرشد ملتے ہیں اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں مرشد کو پانے کی امنگ، آرزو اور تڑپ پیدا ہوتی ہے!
آج تک کسی ولی کامل کو معرفتِ الہی، ولایت اور مشاہد حق تعالی مرشد کامل اکمل کی بیعت اور تربیت کے بغیر حاصل نہیں ہوا ہم توبہت گناہ گار اور معمولی سے انسان ہیں۔ امام غزالی درس و تدریس کا سلسلہ ترک کر کے حضرت یوسف نساج کی غلامی اختیار نہ کرتے تو آج ان کا شہرہ نہ ہوتا۔ مولانا روم اگر شاہ شمس تبریز کی غلامی میں نہ آتے تو ان کو یہ مقام ہرگز نہ ملتا اور علامہ اقبال کو اگر مولانا روم سے روحانی فیض نہ ملتا تو وہ گل و بلبل کی شاعری میں ہی الجھ کررہ جاتے۔
اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ قصہ مختصر کہ فقر و طریقت کی راہ میں آج تک کوئی بھی مرشد کی رہنمائی اور بیعت کے بغیر اللہ تک نہیں پہنچا۔ شیخ نے فرمایا کہ سب سے پہلے تو ہمیں اعتدال کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تنقید میں بھی ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ظالم بننے سے بہترہے کہ مظلوم بنا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ شخصیت پرستی سے بچا جائے شخصیت پرستی ہدایت کے راستے میں رکاوٹ ہے، شخصیت وہی معتبرہے جس کے اقوال وافعال اسلامی اصولوں کے مطابق ہیں، حیرت ہے کہ گوشت پوست کے انسان کو لوگ دیوتا بنائے پھرتے ہیں۔
قومی قیادت کو گفتگو میں احتیاط اور اعتدال کا پہلو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ قوم کو تقسیم کر کے افتراق و انتشار پھیلانے سے اجتناب بہترہے۔ حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ایک اصول واضح طور پر بیان کیا ہے کہ ولی کی پہچان کے حوالے سے سب سے بڑا اصول شریعت کی پابندی ہے کیونکہ کوئی مسلمان بھی شریعت سے بالاتر نہیں چنانچہ سب سے پہلے یہ دیکھنا اور غور سے دیکھنا لازم ہے کہ کیا وہ شخص سختی سے شریعت کا پابند ہے اور روحانیت کے آداب کا خیال رکھتا ہے۔
ذرا غور کریں تو تصنع اور اصل کا فرق واضح ہو جاتا ہے اور بناوٹی پیر کا راز فاش ہو جاتا ہے۔ یہی فرق قیادت کے حوالے سے بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ بلاشبہ قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے لیکن اس کی عظمت و جلالت کی وجہ سے قیادت کے کسی بھی حکم پراندھا دھند عمل نہیں کیا جا سکتا۔
قیادت کے احکامات و نظریات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں پر پورے اترتے ہوں تب ہی قابل قبول اور واجب العمل ہوں گے ورنہ یکلخت انہیں نامنظور کر دیا جائے گا۔ قرآن کا حکم ہے کہ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اور اپنے اولوالامر ( صاحبان امر ) کی (النسا 59 ) سور النسا کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت ہی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے۔
اولوالامریا کسی بھی شخصیت کی اطاعت مستقل اطاعت کے درجے میں نہیں آتی بلکہ یہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (قرآن و سنت کے احکامات) کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قیادت کے احکامات و نظریات قرآن کے قطعی نصوص و احادیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے متضاد نہ ہوں۔
مرشد نے مزید فرمایا کہ پاکستان اللہ کا عطا کردہ انعام ہے سیاستدان اس کی ناقدری نہ کریں،عزت اور ذلت اللہ دیتا ہے اقتدار اللہ کی طرف سے دین ہے اگر کوئی صاحب مسند ہوتا ہے تو اسے اپنی ذمے داریاں کماحقہ ادا کرنا چاہیئں اور اگر کوئی اقتدارسے محروم ہو جاتا ہے تو اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہماری قومی قیادت کو ملک کی ترقی اور روشن مستقبل کے لیے اسلام، عوام اور پاکستان کے نعرے پر متفق ہونا چاہیے۔
اسلام پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں اسلام کے نام پر یہ ملک قائم ہوا ہے اور اسلامی اصولوں پر چلتے ہوئے عوام کی خدمت کریں گے تو پاکستان ترقی کرے گا۔ اسلام ، عوام اور پاکستان لازم وملزوم ہیں۔ آپ نے بہت سارے نعرے آزما کے دیکھ لیے ایک مرتبہ اس نعرے کو بھی اپنے منشور کا حصہ بنا لو پھر دیکھو کامیابی کیسے ملتی ہے۔ میں مرشد کی محفل سے نکلا تو سارے اعتراضات رفع ہو چکے تھے، روحانی تسکین مل چکی تھی ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کی محفل میں بیٹھ کر آپ کا دل نیکی کی طرف راغب ہو، ذکر اذکار کی جانب میلان بڑھے تو سمجھ لیجئے کہ وہ شخص ولی اللہ ہے لیکن اگر اس قسم کی واردات قلبی کا تجربہ نہ ہو تو اس کی دو وجوہ ہوتی ہیں۔
اول شیخ، شیخ کامل نہیں یا محض دکھاوے کا کھیل ہے، دوم ا گر وہ صحیح معنوں میں ولی اللہ ہے تو پھر آپ پر توجہ نہیں۔ توجہ حاصل کرنے کے لئے محنت کرنا پڑتی ہے اور صاحب نظر جب تک آپ کے خلوص، پاکیزگی اور سچی لگن کا قائل نہیں ہوتا اس کی توجہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ خلوص اور لگن کا کیسے پتا چلتا ہے تو یقین رکھیئے کہ شیخ کی نگاہ قلب پر ہوتی ہے اور اسے نہ ہی صرف آپ کی قلبی کیفیت کا علم ہوتا ہے بلکہ آپ کے ذہن سے گزرنے والے خیالات سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔