ادب کا مقام ہے یہاں سنبھل کر چل
عمران خان اقتدار سے باہر ہیں، اقتدار میں آنے کیلئے وہ سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں یہ ان کا حق ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو جب جب اقتدار سے نکالا گیا انہوں نے جارحانہ رویہ اپنایا، آج عمران خان بھی مزاحمتی رویہ اپنائے ہوئے ہیں، یہاں تک تو ہم عمران خان کے ساتھ ہیں لیکن انہوں نے اقتدار سے رخصتی کے بعد جو لب و لہجہ اپنایا ہے ان کے حمایتی بالخصوص نوجوان طبقہ ان سے کئی ہاتھ آگے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا آج کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، حرم نبوی میں جو ہوا یا وطن عزیز کے گلی کوچوں میں جو ناخوشگوار واقعات سامنے آ رہے ہیں، یہ مزاحمتی سیاست کا ہی نتیجہ ہے، ایسے واقعات کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہر دور میں ہی اہل سیاست نے اقتدار کے حصول کیلئے نوجوانوں کو استعمال کیا ہے۔ آج عمران خان بھی اسی کو جاری رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے اصل ٹارگٹ مثالی سماج کی تشکیل ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف سمیت اگر کوئی سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ مخالفین پر کیچڑ اچھال کر وہ اپنے مقصد کو پا لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے، اس کیچڑ کے چھینٹوں سے آپ بھی گندے ہوں گے، اور جب آپ کے حریف کو موقع ملے گا تو جوابی وار کے طور پر وہ بھی کیچڑ اچھالے گا۔ سو یہ راستہ درست نہیں ہے، کیا ووٹ بینک بڑھانے کیلئے لازمی ہے کہ مزاحمتی رویہ اپنا کر مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اگر آپ کی تان مخالفین پر آ کر ٹوٹتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔
کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ اقتدار سے رخصتی کے بعد اپنا احتساب کریں، اپنی غلطیوں کو سامنے رکھیں اور عوام کے پاس جا کر ان کے حقیقی مسائل کو جاننے کی کوشش کریں اور انہیں یقین دلائیں کہ جب آپ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے تو آپ کی اولین ترجیح عوامی مسائل کا حل ہو گی۔ مخلوط حکومت کے پاس ڈلیور کرنے کا وقت ہے اور نہ ہی معاشی حالات اس امر کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ عوام کی نظروں میں مقبول ٹھہر سکے، تحریک انصاف کو اس صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہئے اگر وہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ مانتے ہیں۔
حرم نبوی میں شہباز شریف کے وفد کے خلاف جو ہنگامہ برپا کیا گیا اس رویے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، حیرت ہے تمام حقائق سامنے آ جانے کے باوجود بھی تحریک انصاف کے لوگ ہنگامہ برپا کرنے والوں کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ یہ ادب کا مقام ہے یہاں دھیمے قدموں سنبھل کر چلنا پڑتا ہے، یہ سارے جہانوں کے سردار کا حرم ہے، یہاں مقدس ہستیوں کی قبور ہیں آپ یہاں سیاسی مخالفیں کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اور اس شرمناک عمل پر دلائل دیئے جا رہے ہیں۔ جس جگہ خداوند نے صحابہ کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ذرا اونچی آواز سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ ایسا کرنے والوں کے سارے کے سارے اعمال غارت ہو جائیں گے وہاں سیاسی نعروں کی حمایت کیسے کی جا سکی ہے؟
یہ درست ہے کہ عمران خان نے نوجوانوں کو سیاسی شعور دیا، نوجوانوں کو اپنے حق کیلئے بولنا سکھایا، مگر اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نوجوانوں کو سماجی رویے سکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر نوجوانوں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا ہے تو دنگا فساد ہمارا منتظر ہے، ہم انہی سطور میں پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ نوے کی دہائی میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان ایسی ہی سیاسی کشیدگی کے خطرناک سماجی نتائج سامنے آ چکے ہیں جب رشتے ناطے تک ٹوٹ گئے تھے، اب بھی ویسے ہی حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں، عمران خان چاہیں تو اس کشیدگی کو کم کر سکتے ہیں۔
سیاسی کشیدگی کے امکانات اس لئے بھی زیادہ ہیں کہ جن سیاسی حریفوں کو تحریک انصاف کے دور حکومت میں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا تھا آج وہ حکومت میں ہیں اور اس بات کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کوئی بڑی غلطی کرے جسے جواز بنا کر ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ دوسری طرف تحریک انصاف اس زعم میں ہے کہ جس طرح 2014ء کے دھرنے میں ان کے ساتھ رعایت برتی گئی تھی اب کی بار بھی ایسا ہی ہو گا، جو ایسا سوچ رہا ہے وہ غلطی پر ہے، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے جو اشارے دیئے ہیں اسے سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
سیاسی کشیدگی کی صورت میں جو حالات دکھائی دے رہے ہیں وہ کچھ یوں ہیں کہ تحریک انصاف مزاحمتی سیاست کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہو گی، عیدالفطر کے بعد اسلام آباد کی طرف مارچ کا پروگرام تشکیل دیا جا چکا ہے، جب عمران خان ہزاروں کارکنان کے ساتھ اسلام آباد آئیں گے تو وفاقی حکومت رکاوٹیں ڈالے گی جسے عبور کرنے کی کوشش کی گئی تو بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوں گی، نتیجتاً کارکنان کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ ہو گا۔ یہ نقشہ ملک و قوم کیلئے مہلک ثابت ہو گا ایسے حالات میں اگر نئے انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو فسادات کا دائرہ مزید پھیل جائے گا سو ان خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے اہل سیاست کو دانش کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔