دوست مجھے مشکل میں تنہا نہیں چھوڑتے
انسان کی زندگی خوشی و غم کا مجموعہ ہے، یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے، ہاں ہر شخص کی خوشی و غمی کی کیفیت جدا ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہم سب اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جانا ہے۔ مومن کی شایان شان یہ ہے کہ وہ مشکل وقت کو خدا کی طرف سے آزمائش سمجھ کر قبول کرے، کیونکہ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔ اگر مشکل وقت میں آپ تنہا نہیں ہیں بلکہ آپ کے دوست احباب آپ کے غم میں شریک ہیں تو اس پر خدا کا شکر ادا کریں کیونکہ انسان کی اصل جمع پونجی اس کے وہ دوست اور عزیر ہیں جو مشکل میں اس کا ساتھ دیتے ہیں۔
ہر سماج میں دوست کو خاص اہمیت حاصل ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ اچھا دوست ہاتھ اور آنکھ کی طرح ہوتا ہے جب ہاتھ کو درد ہوتا ہے تو آنکھ روتی ہے اور جب آنکھ روتی ہے تو ہاتھ آنسو صاف کرتا ہے۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ دوست چاہے کتنا برا بن جائے کبھی اس سے دوستی مت توڑو کیونکہ پانی چاہے کتنا ہی گندہ ہو جائے آگ بجھانے کے کام ضرور آتا ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ تین طرح کے لوگ دوست نہیں ہو سکتے۔ تمہارا دشمن۔ تمہارے دوست کا دشمن اور تمہارے دشمن کا دوست۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں ایسے دوست سے ہاتھ دھو لینا بہتر ہے جو تیرے دشمنوں کے ساتھ بیٹھتا ہو۔ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ مجھے ایسے دوست کی دوستی پسند نہیں جو میری بری عادتوں کو اچھا جانے اور میرے عیب کو ہنر جانے اور میرے کانٹوں کو گلاب و یاسمین کا نام دے۔
چند روز قبل میری فیملی پر قیامت صغریٰ آ کر گزر گئی، گزشتہ کالم میں مختصراً ذکر بھی کیا تھا لیکن اس تمام تر آزمائش میں میرے دوست اور عزیر میرے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیئے۔ جب نومولود دونوں بچے اللہ کو پیارے ہو گئے تو مجھے فکر لاحق تھی کہ بچوں کی تجہیز و تکفین کس طرح ہو گئی کیونکہ اہلیہ آئی سی یو میں موت و حیات کی جنگ لڑ رہی تھی، اسے سنبھالتے یا تدفین کرتے۔ میرے حواس اپنی جگہ قائم نہیں تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب رات کے دس بجے تو میرے دوست نے مجھے پانی کی بوتل دیتے ہوئے کہا کہ شاید آپ نے ابھی تک روزہ افطار نہیں کیا ہے، بڑی مشکل سے پانی کے دو گھونٹ حلق سے نیچے اترے۔ میں خدائے بزرگ و برتر کے شکر کے ساتھ اپنے ان دوستوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کڑے وقت میں سارے کام ایسے سنبھال لئے کہ مجھے خبر تک نہ ہونے دی کہ بچوں کی تجہیز و تکفین کیسے ہو گئی۔
اس کے بعد اہلیہ کیلئے خون کی کی کئی بوتلوں کی ضرورت تھی کیونکہ خون بہت ضائع ہو چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اَن میچ خون کا بندوبست ہو سکتا ہے تو وہ کر لیں اس لئے کہ جو خون لگاتے تھے وہ باہر نکل جاتا تھا۔ خیر یہ کام بھی میرے دوستوں نے اس طرح آسان بنا دیا کہ مجھے کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ میں دوستوں کے اس تعاون کا مقروض ہوں۔ دوستوں کی طرف سے فکر مندی دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ شاید ایسے مواقع پر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا جب ان سے کسی نے پوچھا کہ دوست اور بھائی میں کیا فرق ہے تو فرمایا کہ بھائی سونا ہے اور دوست ہیرا ہے۔ پوچھا گیا کہ آپ نے بھائی کو کم قیمت اور دوست کو قیمتی چیز سے تشبیہ کیوں دی؟ فرمایا کہ سونے میں اگر دراڑ آ جائے تو اسے پگھلا کر بالکل پہلے جیسا بنایا جا سکتا ہے جبکہ ہیرے میں کوئی دراڑ آ جائے تو وہ کبھی بھی پہلے جیسا نہیں بن سکتا۔ مشکل کے وقت میں جس طرح دوستوں نے میرا ساتھ اس سے میں نے بخوبی اندازہ لگا لیا کہ واقعی دوست ہیرا کی مانند ہے۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جا سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کی تین مواقع پر نگہداشت نہ کرے۔ اول مصیبت کے موقع پر ، دوم اس کے پس پشت اور سوم اس کے مرنے کے بعد۔ اسی طرح ایک جگہ پر فرمایا کہ دوست تین قسم کے ہوتے ہیں تمہارا دوست تمہارے دوست کا دوست اور تمہارے دشمن کا دشمن۔ اچھی دوستی وہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختہ ہوتی جائے۔ دوست وہ ہے جو محفل میں آپ کی غلطیاں چھپائے اور تنہائی میں سمجھائے جو غیروں کی محفل میں آپ کی عزت اور مقام کی حفاظت کرے، آپ کے راز کو راز رکھے اور مصیبت میں پہلو تہی نہ کرے۔
کہا جاتا ہے دوست وہی جو مشکل میں کام آئے۔ اچھے دوست ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے مگر دوسروں سے توقع رکھنے کی بجائے خود کو اچھا ثابت کرنا ہو گا۔ اکثر لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ دوست ان کا ساتھ نہیں دیتے، کسی کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ ہم دوسروں کو مشکلات سے نکالنے میں کس قدر تعاون کرتے ہیں اگر آپ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں تو پھر آپ کے دوست کبھی بھی آپ کو مشکل میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔