عمران خان فوری انتخابات کیوں چاہتے ہیں؟

متحدہ اپوزیشن کی جماعتیں اب مخلوط حکومت کا حصہ ہیں اور اقتدار میں حصہ بقدر جثہ وصول کر رہی ہیں، تمام اتحادیوں کو وزارتوں سے نوازا گیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمان ، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے آج سے دو سال قبل تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے لیے جو مہم شروع کی تھی وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے، تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ نئی مخلوط حکومت سابقہ حکومت کے چھوڑے ہوئے مسائل کو حل کر پائے گی یا اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا؟

حقیقت یہ ہے کہ نومنتخب مخلوط حکومت کے لیے ڈیلیور کرنا آسان نہ ہو گا، کئی ماہرین تو واضح کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی ناکامی کے امکانات زیادہ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نومنتخب مخلوط حکومت کو کام کرنے کے لیے سازگار ماحول نہیں فراہم کرے گی کیونکہ تحریک انصاف کے پاس کھونے کے لیے مزید کچھ نہیں سو وہ چاہتی ہے کہ جلد از جلد نئے انتخابات کرائے جائیں اور فریش مینڈیٹ ملنے کے بعد نئی حکومت سازی کی جائے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کا امریکہ مخالف بیانیہ عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے جو انتخابات میں کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے، اس دوران تحریک انصاف کے کارکنان سوشل میڈیا پر مہم چلائے ہوئے ہیں کہ ’’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘ ۔ اسی طرح تحریک انصاف کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عدالتوں سے ضمانتوں پر کابینہ کے ارکان کو اپنے عہدوں پر فائز رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ الزام تراشی کی سیاست ہے جسے عوامی حلقے پسند ہیں، عمران خان شاید اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
تحریک انصاف ایک طرف نومنتخب حکومت کے خلاف مہم چلائے ہوئے ہے تو دوسری طرف پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے حلف کی راہ میںرکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔

گورنر پنجاب اور صدر مملکت کی طرف سے مشکلات کے باعث حمزہ شہباز ایوان سے منتخب ہونے کے باوجود تاحال اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھا پائے ہیں۔ تحریک انصاف کی ساری کوشش اس نقطے پر مرکوز ہے کہ کسی طرح سے مخلوط حکومت کو ناکام ثابت کر کے نئے انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔ اسی لئے تحریک انصاف بیک وقت کئی محاذوں پر لڑتی دکھائی دیتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے فارنگ فنڈنگ کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے ، عدالت میں رٹ دائر کی گئی ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی فنڈنگ کا کیس ایک ساتھ سنا جائے۔ اس سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس سے راہِ فرار اختیار کر رہی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے قائدین کو کرپٹ کہہ کر سیاست کی جا رہی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اگرچہ کرپشن کے خلاف تین سال تک کیسز چلتے رہے ہیں اور کچھ ثابت نہیں ہوا ہے اس کے باوجود تحریک انصاف کا ورکر عمران خان کی بات پر یقین کر رہا ہے۔

تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ حکومت ختم ہونے کے بعد نو منتخب حکومت بھی تحریک انصاف کے نقش قدم پر چلتی دکھائی دے رہی ہے، شنید ہے تحریک انصاف کے قائدین کے خلاف عید کے بعد پنڈورہ بکس کھلنے والا ہے۔ اندرون خانہ کئی کیسز تیار کر لیے گئے ہیں ۔ سیاسی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو بھی ویسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جیسا ان کے دور حکمرانی میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کو کرنا پڑا تھا۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ انتشار پھیل جائے گا۔

بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ نو منتخب مخلوط حکومت کم ترین مدت میں کیسے ڈیلیور کرے گی۔ وزیر خزانہ کے دورہ واشنگٹن سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ امریکہ نومنتخب حکومت کے لیے مراعاتی پیکیج فراہم کرنے میںکردار ادا کرے گا کیونکہ تحریک انصاف کی نسبت موجودہ مخلوط حکومت امریکہ کو سوٹ کرتی ہے۔ شاید اسی بنا پر وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ڈیفالٹ ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ اسی طرح سابقہ حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں 6ماہ کا عرصہ لگا تھا ، موجودہ حکومت نے محض 7روز میںکامیاب مذاکرات کر لیے ہیں، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کا خاتمہ ہو رہا ہے ۔

چین اور عرب ممالک کی طرف سے بھی پاکستان کو آسان شرائط پر قرض مل جاتا ہے تو معاشی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے ۔ معاشی بحران پر قابو پانے کے بعد ہی امید کی جا سکتی ہے کہ نو منتخب مخلوط حکومت مہنگائی کم کر پائے گی یا نہیں؟

اگر مختلف مدات میں سبسڈی دے کر کام چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ حقیقی تبدیلی نہیں ہو گی بلکہ اس کا حشر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی طرح ہو گا کہ سابقہ حکومت نے سبسڈی دے کر عوام کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی مگر دوسری حکومت نے آتے ہی اس سبسڈی کو معیشت کے لیے منفی قرار دے کر ختم کر دیا ہے ، یہ درست ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت دیرپا منصوبے شروع کرنے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی ہے، تاہم اگر وقتی ریلیف دینے میں بھی کامیاب ہو گئی تو عوام کی عدالت میں سرخرو ٹھہرے گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button