شہباز شریف کیلئے اقتدار کانٹوں کی سیج

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد شہباز شریف ملک کے نئے وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں مگر کیا وہ ملک کو مشکلات سے نکالنے میں بھی کامیاب ہو سکیں گے یہ سوال بہت اہم ہے۔ شہباز شریف اس سے قبل تین بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، وہ گڈ گورننس میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے خود کو خادمِ اعلیٰ کہلانا پسند کیا۔ ترقیاتی منصوبوں کو مختصر مدت میں مکمل کرانے کا رجحان شہباز شریف نے ہی ڈالا، پشاور موڑ اسلام آباد سے ایئرپورٹ تک میٹرو کا آغاز اس کی واضح مثال ہے۔ کہا جاتا ہے بیوروکریسی سے کس طرح کام لینا ہے شہباز شریف سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ شہباز شریف کی ان خصوصیات کو کافی حد تک مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں تاہم اب وہ ملک کے وزیراعظم ہیں تو ملک کے چاروں صوبوں کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ ان کے سامنے مسائل کا پہاڑ منہ کھولے کھڑا ہے، چینلجز زیادہ ہیں اور ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔

شہباز شریف اتحادیوں کے تعاون سے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں، ان کے پاس مینڈیٹ بہت کمزور ہے، وزیر اعظم ہونے کے باوجود کئی مسائل ان کی دسترس میں نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا اور ان کی ڈیمانڈز پوری کرنا آسان نہیں ہو گا۔ وفاقی کابینہ میں تمام اتحادی جماعتوں کو نمائندگی دی گئی ہے تو بطور وزیر اعظم وزراء سے جواب دہی میں شہباز شریف کیا اس رویے کا مظاہرہ کر سکیں گے جو وہ پنجاب کے وزراء کے ساتھ اپناتے رہے ہیں۔ ہماری دانست میں اتحادی وزراء شہباز شریف کے قابو نہ آئیںگے کیونکہ اہم فیصلوں کے لیے کارکردگی نہیں بلکہ ایوان کے اندر مطلوبہ مینڈیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ مخلوط حکومت کو ایوان کے اندر مطلوبہ مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے باوجود تاحال حلف نہیں اُٹھا سکے ہیں، سوکمزور مینڈیٹ کے ساتھ ایوان کو چلانا کسی آزمائش سے کم نہ ہو گا۔

تحریک انصاف صدر مملکت عارف علوی کے ذریعے حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرے گی اور حکومت چاہتے ہوئے بھی صدر کو ہٹا نہیں سکے گی کیونکہ صدر کو ہٹانے کے لیے اس کے پاس مطلوبہ مینڈیٹ نہیں ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان گورنر کے بغیر چل رہے ہیں، گورنر پنجاب بھی چند روز تک فارغ ہو جاتے ہیں اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی سیٹ بھی خالی ہوتی ہے تو سسٹم کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ عثمان بزدار کا استفعیٰ تکنیکی بنیاد پر منظور نہیں ہوتا تو وزارت اعلیٰ کا انتخاب سمیت تمام پراسیس متنازع بن جائے گا جس کا فائدہ بہرصورت تحریک انصاف کو ہو گا۔ تحریک انصاف تاخیری حربے اپنا کر دراصل بحران پیدا کرنا چاہتی ہے، اس لئے کہ جب بحران پیدا ہو جائے گا تو نئے انتخابات کے سوا کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔

وزیر اعظم شہاز شریف کے لیے سب سے بڑا چیلنج کمزور معیشت کو بحال کرنا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ساکھ کو مستحکم کرنا ، بیرونی قرضوںکا بوجھ کم کرنا اور ایسے اقدامات اُٹھانا جس سے عام آدمی کی آمدن میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی ہو، مختصر مدت میں معاشی حالات پر قابو پانا آسان نہیں ہو گا مگر اتحادیوںکا تعاون شامل حال رہا تو قوی امید ہے کہ شہباز شریف معیشت کو بحران سے نکالنے میں کافی حد تک کامیاب ہو جائیں گے۔ نو منتخب وزیر اعظم کو معاشی حوالے سے فوری طور پر تین طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کی سابق حکومت نے چونکہ پٹرولیم مصنوعات کو سبسڈی کے ذریعے مستحکم کیا ہوا تھا جس کا بوجھ قومی خزانے پر پڑ رہا تھا، نئی حکومت کیلئے سابق حکومت کی اس پالیسی کو جاری رکھنا آسان نہ ہو گا، مجبوراً وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی جو عوامی غیض و غضب اور شدید ردِعمل پر منتج ہو گا۔

دوسرے یہ کہ مئی کے آخر میں بجٹ پیش کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ، نو منتخب حکومت کے لیے متوازن بجٹ پیش کرنا کسی آزمائش سے کم نہ ہو گا کیونکہ آج باقاعدہ طور پر خزانہ کا قلمدان مفتاح اسماعیل کو سپرد کیا گیا ہے اس کے بعد وہ اپنی ٹیم تشکیل دیں گے اور بجٹ پر کام شروع ہوتے ہوئے مزید وقت لگ جائے گا۔ تیسرے یہ کہ آئی ایم ایف پروگرام کوکن شرائط پر جاری رکھا جائے گا؟ اگر پہلی حکومت کی شرائط پر رکھا جاتا ہے تو مشکلات کا سامناکرنا پڑے گا ، اگر معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو ملکی معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔

خارجہ پالیسی کو تشکیل دینا نو منتخب وزیراعظم کیلئے کٹھن مرحلہ ہو گا کیونکہ تحریک انصاف کو خارجہ محاذ پر ناکامی کی صورت ہی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں، موجودہ صورتحال میں ہم امریکہ و چین میںکسی کی ناراضی مول نہیں لے سکتے ہیں، امریکہ کو ناراض کئے بغیر سی پیک پر کام جاری رکھنا بہتر سفارت کاری کے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا، شہباز شریف جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو چین کے ساتھ ان کے خوشگوار تعلقات تھے امید کی جانی چاہئے کہ وہ ان تعلقات کو بروئے کار لائیں گے۔ اسی طرح اندرونی خلفشار پر قابو پاکر بروقت نئے انتخابات کو یقینی بنانا اہم چیلنج ہے، کیونکہ حکومت کے اتحادی بھی عام انتخابات کو مسائل کا حل قرار دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور لیگی رہنما خواجہ آصف نے حکومت میں ہونے کے باجود جلد از جلد نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ کیا اس قلیل مدت میں وزیر اعظم شہباز شریف ایسے فیصلے کر پائیں گے جو آئندہ انتخابات میں ان کی پارٹی کیلئے مفید ثابت ہوں گے یا تحریک انصاف کی سابق حکومت کا معاشی بوجھ ان کے کندھوں پر آن پڑے گا اور ملک کے نامساعد حالات کا انہی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا؟

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button