تحریک انصاف کا تبدیلی سے آزادی تک کا سفر

جن لوگوں کو تبدیلی کے نام پر دھوکہ دیا گیا وہ اب آزادی کے نام پر دھوکہ کھانے جا رہے ہیں، ایک طرف ان کی حالت تو یہ ہے کہ امریکہ سے آزادی کا تو نعرہ لگا رہے ہیں مگر دوسری طرف وہ عمران نیازی کی غلامی میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ وہ اپنی قیادت سے یہ پوچھنے کی بھی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں کہ وہ تبدیلی والے نعرے کا کیا بنا؟

پہلے ساڑھے تین سالہ حکومت کا تو حساب دو، پھر اگلی منزل پر روانہ ہوں گے مگر ذہنی غلاموں میں یہ ہمت کہاں؟ اس لیے مداری نئے نعرے کے ساتھ چورن بیچنے میدان میں آ گیا ہے اور قوم یوتھ اس پر ایک مرتبہ پھر ناچ رہی ہے۔ تبدیلی کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت ملی مگر کارکردگی صفر رہی۔ کوئی بھی حکومت جب جائز یا ناجائز طریقے سے ختم ہوتی ہے تو وہ عوام کے پاس جاتی ہے کہ اس نے ملک کی ترقی کے لیے فلاں فلاں منصوبے شروع کیے تھے مگر ان کی حکومت ختم کر دی گئی لہذا قوم انہیں دوبارہ منتخب کرے تاکہ ترقی کا جو سفر جہاں ختم ہوا تھا وہاں سے دوبارہ شروع کیا جائے۔

یہ عمران نیازی ہیں کہ جن کے پاس اس حوالے سے بتانے کو کچھ بھی نہیں، اس لیے وہ ایک جذباتی نعرہ اور جھوٹ پر مبنی بیانیہ سامنے لائے ہیں جس پر ان کے کارکن بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ رمضان کی ان مقدس راتوں میں جب لوگ اللہ کو راضی کرنے کے لیے عبادتوں میں مصروف ہیں وہاں عمران نیازی اور ان کے حامیوں نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد دوبارہ سے پورے ملک کو ڈی چوک بنا دیا ہے جہاں میوزک کنسرنٹ ہو رہے ہیں ایک طرف مساجد میں تراویح پڑھی جا رہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف موسیقی کی دھنوں اور ناچ گانوں سے امریکہ سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہدکی جا رہی ہوتی ہے۔ عمران نیازی نے جس بے حیائی، فحاشی، بد اخلاقی اور سیاسی فاشزم کو فروغ دیا وہ کسی قومی رہنماء کو زیب نہیں دیتا۔ سوشل میڈیا پر ہندووں نوجوانوں کے ٹویٹس نظروں سے گزرے ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کراچی شہر میں ہندو برادری اپنا مذہبی تہوار ہنومان جیانتی رمضان کے احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے بغیر بھجن کیرتن اور سائونڈ سسٹم کے منا رہی ہے مگر پی ٹی آئی کے جلسے کو دیکھ کر ہمیں بھی شرم آ رہی ہے ۔

خیریہ شرم کی باتیں پی ٹی آئی کے ساتھ میل نہیں کھاتیں۔ ہم پہلے ہی کہتے تھے کہ عمران نیازی کا ریاست مدینہ بنانے کا دعوی سراسر دھوکہ ہے مگر کچھ لوگ ماننے کو تیار نہیں تھے ابھی چنددن قبل پریڈگرائونڈ میں منعقدہ جلسے کو امر بالمعروف کا نام دیا گیا مگر اب وہ نعرہ بھی کہیں ناچ گانے میں گم ہو گیا ہے۔ عمران خان چانکیہ اور میکاولی کی سیاسی تصورات کا حامی ہے ۔ اس کا ایک ہی ہدف ہے کہ نوجوانوں کو جذباتی بنا کر اقتدار حاصل کرے اور اپنے آقاوں کے عزائم کی تکمیل کرے۔ یہ نوجوان اس وقت اسی جذباتی کیفیت سے گزر رہے ہیں اور ہر ایک کامنہ نوچ رہے ہیں۔ یہ جذباتی نوجوان اس وقت ہمارے معاشرے کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے سیاسی جماعتوں سے لے کر پاک فوج تک، میڈیا کے حلقوں سے لے کر مختلف اداروں تک یہ نوجوان حملہ آور ہے اور ایک خطرناک سازش کے ساتھ حملہ آور ہے اور اس وقت یہ ملکی سلامتی سے بھی کھیلنے سے گریز نہیں کر رہا۔

پچھلے دنوں پاک فوج کی اعلی قیادت کے خلاف جو شرانگیز مہم چلائی وہ نہایت خوفناک تھی سیکورٹی اداروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس کا کچھ تدارک تو کیا ہے مگر مکمل علاج نہیں کیا گیا۔ سیاسی اور قومی قیادت کو ملک و قوم کو متحد کرنے کے فکر ہوتی ہے اس کے لیے اسے بہت سی چیزوں کی قربانی دینا ہوتی ہے مگر عمران نیازی اور ان کے ہمنوا ایک آئینی طریقے سے اپنی حکومت کے خاتمے پر تلملا رہے ہیں اور اس غم میں وہ کسی بھی ادارے یا شخص کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

پاکستان کے خلاف نہایت خوفناک کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل میں پی ٹی آئی کے کارکن آلہ کار بنے ہوئے ہیں، قوم کو تقسیم کیا جا رہے معاشرے میں تفریق پیدا کی جا رہی ہے اداروں کی لڑانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اور اس سارے کھیل میں یہ نوجوان استعمال ہو رہے ہیں۔ اس نوجوان کے جذبات سے عمران خان اور ان کے آقا کھیل رہے ہیں ہمارے دوست احمد اعجاز نے غیر ملکی نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کا فین کلب کبھی بھی سیاسی ورکر نہ بن سکا۔

سیاسی ورکر جمہوریت اور دلیل پر یقین رکھتا ہے جبکہ کپتان کے پرستار اپنے لیڈر کی طرح آمرانہ مزاج اور زعم پارسائی کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔ احمد اعجاز کی اس بات کا عملی نمونہ دیکھنا ہو تو سوشل میڈیا دیکھ لیں جہاں پی ٹی آئی کے فالورز انتہائی غلیظ ٹرینڈ چلاتے نظر آئیں گے، مخالفین کی پگڑیاں اچھال رہے ہوں گے، سیاسی، مذہبی اور عسکری قیادت کے خلاف برے القابات اور تضحیک آمیز جملوں کا استعمال کر رہے ہوں گے،گالی گلوچ کے کلچرکے فروغ دے رہے ہوں گے اور اس معاملے میں وہ تمام اقدار اور حدود کو پھلانگ رہے ہوں گے اور یہ پہلے دن سے ان کا وطیرہ ہے۔

معروف تجزیہ نگار اور صحافی سجاد اظہرنے نوجوانوں کے اسی رویے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ثقافتی گہرائی یا تنقیدی نگاہ سے عاری نوجوان نسل نے بس میڈیا دیکھا اور میڈیا پر کپتان ہی کپتان تھا۔ یہ شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والی وہ نسل تھی جن کے ماں باپ رزق کی دوڑ دھوپ میں ان کی تربیت کے لیے وقت نہ نکال سکے۔ ایک ہجوم کی شکل میں یہ نوجوان سوشل میڈیا پر چڑھ دوڑے۔ پاکستان تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کو ٹول کے طور پر کمال مہارت سے استعمال کیا۔”پاکستان سٹڈی سرکل جامعہ کراچی کے سابق صدر، پچیس سے زائد کتابوں کے مصنف اور پولیٹیکل سائنس کے معروف نام ڈاکٹر جعفر احمد کا دکھ ذرا مختلف ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، پی ٹی آئی نے بدزبانی کے جس کلچر کو فروغ دیا وہ افسوس ناک ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات ایک بہت بڑی تعداد کا اسے قبول کرنا ہے۔”جن لوگوں نے عمران نیازی کی آبیاری کی تھی اب وہ بھی سر پکڑ کربیٹھے ہیں کہ یہ ہے وہ تبدیلی کہ جس کا خواب انہوں نے دیکھا تھا؟ مگر اب پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکا ہے اس لیے اس زہر کا تریاق نہ کیا گیا تو یہ ایک خطرنک فتنے کا روپ دھار لے گا۔

عمران نیازی نے تحریک عدم اعتماد سے لے کرپنچاب اسمبلی تک جو تماشا لگایا ہے جس طرح آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ سیاسی جماعت نہیں اور نہ ہی عمران خان میں جمہوری شخصیت کی کوئی نشانیاں موجود ہیں۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ جب تک وہ اقتدار میں ہیں تو سب اچھا ہے اور جوں ہی وہ اقتدار سے الگ ہوئے ملک اور ملکی سلامتی کے اداروں کو بھی نشانے پر رکھ لیا اور ان سے جو اختلاف کرے وہ غدار بن گیا یہ ہے وہ سیاسی سوچ جس کی برسوں کی محنت سے پروان چڑھایا گیا تھا؟

عمران نیازی نے یہ سوچ اور نظریہ دیا ہے کہ صرف وہ حق پر ہیں باقی سب باطل ہیں، وہ سلیکٹ ہو کر حکمران بنیں تو سب ٹھیک ہے اگر ان کا مخالف الیکٹ ہو جائے تو سب غلط ہے، شیخ الحدیث مولانا زاہدالراشدی نے بالکل درست کہا ہے کہ امپورٹڈحکومت نامنظورکا نعرہ بہت خوش کن ہے مگرجہاں فیٹف (FATF)۔سیڈا( CEDA)اور آئی ایم ایف کے بھیجے ہوئے امپورٹڈ قوانین ڈکار لیے بغیر ہضم ہوں وہاں یہ نعرہ دل فریب ہونے کے باوجود عجیب سا لگتا ہے۔

اس لیے یہ امریکہ سے آزادی کا نعرہ بھی تبدیلی کے نعرے کی طرح ایک دھوکہ ہے جو شخص اپنے کارکنوں کو یہ ہدایت کرے کہ امریکہ میں مظاہرہ کرو مگر امریکہ مخالف نعرہ نہ لگانا جس کی کابینہ میں درجن بھر افراد کا تعلق امریکہ اور یورپی ممالک سے ہوں جس کی کابینہ کے لوگ امریکہ مخالف نعرہ لگانے سے بھاگیں، اور جو شخص اپنی حکومت کے خلاف سازش ہوتا دیکھ کر امریکی سفیر کو ملک بدر نہ کرے امریکہ سے سفارتی تعلقات منقطع نہ کرے اور جس میں یہ ہمت نہ ہو کہ وہ امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کرے اور وہاں کھڑے ہو کراپنی زبان سے امریکہ مردہ بادکا نعرہ لگائے وہ قوم یوتھ کو تو دھوکہ دے سکتا ہے مگر یاد رکھیں کہ اہل پاکستان اس کے فریب میں نہیں آئیں گے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button