شکست کو تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کریں
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد پورا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے، جس کی بدولت ہر شعبہ زندگی متاثر ہو رہا ہے کیونکہ جس حکومت نے عوامی مسائل پر توجہ دینی تھی وہ خود اپنا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ ریاستی رٹ کمزورہونے اور حکومت کی عدم توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف مافیاز سرگرم ہو گئے ہیں، اگر اس ہیجانی کیفیت کا جلد خاتمہ نہ کیا گیا تو بحران سر اٹھا سکتا ہے۔ یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوئی کیونکہ حکومت و اپوزیشن میں سے ہر کوئی خود کو درست سمجھ رہا ہے، جب ہم تحریک عدم اعتماد اور بیرونی سازش کو الگ الگ رکھ کر سوچیں گے تو اس کا حل بھی مل جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے جو اُن کا آئینی حق ہے، جبکہ وزیر اعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ بیرونی دباؤ کے تحت ان کے خلاف سازش کی جا رہی ہے، اس ضمن میں وہ ثبوت کے طور پر ایک خط پیش کرتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اس خط کو ڈرامہ قرار دے رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قوی امید تھی کہ اب ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو جائے گا مگر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں عندیہ دیا ہے کہ وہ شہباز شریف کو وزیر اعظم قبول نہیں کریں گے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہیجانی کیفیت کے ختم ہونے کے قریب قریب امکانات نہیں ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ تحریک انصاف ایوان میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے راہ فراہ اختیار کر رہی ہے بلکہ عمران خان نے ایک بار پھر نوجوانوں کو سٹرکوں پر نکلنے کی کال دے دی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں، عمران خان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اقتدار کوچھوڑنے کیلئے اس طرح کا تاثر دیں گے، انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ صرف جیت ہی کامیابی نہیں ہے بلکہ ہار کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرنا بھی کامیابی ہی کہلاتا ہے۔ جو کپتان ہار کے بعد آگے بڑھ کر جیتنے والی ٹیم کو مبارک باد دیتا ہے اس کے طرز عمل کو سراہا جاتا ہے۔
عمران خان کی زندگی کا بڑا حصہ کھیل میں گزرا ہے تو ان سے بھی یہی توقع کی جا رہی تھی مگر ان کا طرز عمل شکست کو تسلیم کرنے کے برعکس دکھائی دے رہا ہے۔ جب ٹائی ٹینک جہاز ڈوب رہا تھا تو اس کے کپتان نے اپنے آپ کو بے رحم موجوں کے سپرد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس تباہی کا میں ہی ذمہ دار ہوں سو اس نے باقی لوگوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا مگر خود راہ فرار اختیار نہیں کیا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو فرار ہو کر اپنی جان بچا سکتا تھا۔حکومت و اپوزیشن کے تیور سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاملات مزید خرابی کی طرف جا رہے ہیں، اگر تحریک عدم اعتماد کو الگ رکھا جاتا اور بیرونی مداخلت والے معاملے کو الگ رکھا جاتا تو مسئلہ آسان ہو سکتا تھا۔
حکومتی مؤقف یہ ہے کہ بیرونی سازش کی تحقیقات سے پہلے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہونی چاہئے، اسی طرح اپوزیشن جماعتوں نے بھی سخت مؤقف کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی چاہئے، بیرونی سازش والے معاملے کو بعد میں دیکھ لیا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں حکومت و اپوزیشن کے اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
پہلے مرحلے میں ووٹنگ کروا کے اس کے نتائج کو بیرونی سازش کی تحقیقات کے ساتھ مشروط کیا جا سکتا ہے، اگر ووٹنگ کے نتیجے میں عمران خان ناکام ہوتے ہیں اور ان کی جگہ شہباز شریف کامیاب ہوتے ہیں تو اس عمل کو مکمل کر کے اگلے تین روز میں بیرونی سازش کی تحقیقات کرا لی جائیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعد چونکہ اپوزیشن جماعتوں کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے اس لئے وہ نہیں چاہیں گی کہ بیرونی سازش والے معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں مگر بیرونی سازش کو یکسر مسترد کر دینا اخلاقی اعتبار سے درست نہ ہو گا۔
اپوزیشن جماعتوںکو کھلے دل کے ساتھ بیرونی سازش کی طے تک جانا چاہئے، اگر اپوزیشن جماعتیں اس پر توجہ نہیںدیتی ہیں تو یہی سمجھا جائے گا کہ جس طرح تحریک انصاف ووٹنگ سے راہ فراہ اختیار کر رہی ہے اسی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی بیرونی سازش والے معاملے کی تحقیقات کرانے سے راہ فراہ اختیار کر رہی ہیں۔ حکومت و اپوزیشن اپنے مؤقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹنے سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے، اس عرصہ کے دوران ڈالر کی قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں بیرونی قرضے بڑھ گئے ہیں اس کی ذمہ داری حکومت و اپوزیشن دونوں پر عائد ہوتی ہے۔