نیک اعمال مصیبت سے چھٹکارے کا ذریعہ ہیں
انسانی زندگی مصائب و تکالیف اور سختیوں و دشواریوں سے مرکب ہے۔ سنت الہیہ یہ ہے کہ بندہ کو آسانی و مشکل اور تنگی و کشادگی کے درمیان رکھا جاتا ہے۔
لامتناہی مشکلات اور بے پناہ دشواریوں کے ازالے میں انسان کسی معین و مددگار کا محتاج ہوتا ہے تاکہ یہ سختیاں اس کو ہلکان نہ کر دیں اور یہ مصیبتیں اس کی جان نہ نکال لیں۔ انسان ہر گز اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی حامی و مددگار نہیں پا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ترجمہ:’’اللہ کافی ہے کارساز اور اللہ کافی ہے مددگار۔‘‘ (سورۃ النساء:۴۵)
اللہ تعالیٰ نے اس بات کا وعدہ فرمایا ہے کہ اس کی نگہبانی ایمان والوں کے لیے اور اس کی مدد دین والوں کے لیے ہے۔ چنانچہ فرمایا:
ترجمہ:’’جو لوگ ایمان لائے ان کا خدا دوست ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ : ۲۵۷)
اسی طرح فرمایا:
ترجمہ: ’’اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔‘‘(سورۃ الحج:۴۰)
اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کا ذریعہ اس کے دین کی مدد کرنا‘ دینداری کے راستہ پرثابت قدم رہنا اور ہر طرح کے حالات میں حکم الٰہی کو لازم پکڑنا ہے۔ یہ وہ اعمال ہیں جن کی بدولت انسان اللہ کی مدد و نصرت کا مستحق بن جاتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے: ’’خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو وہ سختی میں تمہیں یاد رکھے گا۔‘‘ (رواہ احمد)
اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’پھر مچھلی نے ان کو نگل لیا اور وہ (قابل) ملامت (کام ) کرنے والے تھے۔ پھر اگر وہ (خدا کی) پاکی بیان نہ کرتے تو اس روز تک کہ لوگ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اسی کے پیٹ میں رہتے۔ (سورۃ الصفٰت:۱۴۲۔۱۴۴)
مذکورہ قصہ ہمارے لیے ان لوگوں کی ایک واقعاتی اور حقیقی صورت پیش کرتا ہے جو مصیبت کا شکار ہو گئے اور ان کے پاس اس مصیبت کے ازالے کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ کار نہ تھا کہ وہ خوشحالی اور اطمینان کے زمانہ میں کیے گئے اعمال کے واسطہ سے اللہ کی پناہ اور مدد کو طلب کریں۔
قصہ کا یہ رخ مندرجہ ذیل حقائق کو آشکار کرتا ہے:
(۱)۔ کشادگی اور آسانی کے زمانہ میں اللہ کی معرفت و عبادت ، دشواری اور تنگی کے زمانہ میں راحت کے حصول اور مشکل سے نجات کا ذریعہ ہے۔
(۲)۔ نیک اعمال کا ایک مادی اثر ہے جو نعمتوں کے حصول اور تکالیف سے چھٹکارا کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ کبھی یہ اثر پوشیدہ اور خفیہ صورت میں آشکار ہوتا ہے اور کبھی دکھائی دینے والی صورت میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔ دوسری صورت کو کرامت کہا جاتا ہے ۔
(۳)۔ عمل کی حقیقی قیمت اخلاص کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ جب انہوں نے ریا سے خالی خالص ترین اعمال صالحہ بارگاہِ خداوندی میں پیش کیے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مصیبت کو دور فرما دیا۔
٭نیک اعمال کو وسیلہ بنانا
ہر طرح کی سختیوں اور مصیبتوں میں صرف اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرنی چاہیے اور اس قسم کے دشوار حالات میں اپنے اعمال صالحہ کو وسیلہ بنا کر دعا کرنی چاہیے۔