اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش

عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا جو اقدام اٹھایا ہے اسے عام الفاظ میں راہ فرار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش کی اس سے پہلے عمران خان کئی اقدامات اٹھا سکتے ہیں مگر تحریک عدم اعتماد آ جانے کے بعد ان کے اختیارات محدود ہو گئے، بہتر ہوتا وہ بہادری کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرتے، ووٹنگ کا عمل پورا ہونے دیتے، اور نتائج کو تسلیم کرتے مگر خلاف توقع انہوں نے اسمبلیاں توڑ دی ہیں، ان کے حامی عمران خان کی اس چال کو ان کی کامیابی قرار دے رہے ہیں کیونکہ بظاہر وقتی طور پر اپوزیشن کو بیک فٹ پر جانا پڑا ہے۔ کچھ لوگ اسمبلیاں تحلیل کرنے کو سرپرائز کا نام دے رہے ہیں اگر یہی سرپرائز ہے تو آگے چل کر تحریک انصاف کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ ے گا کیونکہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد وزیر اعظم اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا حق کھو چکے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ عمران خان کا اپنا فیصلہ نہیں ہے بلکہ ان اراکین کی طر ف سے مشورہ دیا گیا جن کے پاس بظاہر کوئی سیاسی آپشن نہیں ہے چونکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا ہے اس لئے ہمیں کل تک کا انتظار کرنا ہو گا کہ سپریم کورٹ کیا رہنمائی کرتی ہے تاہم سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے واضح کر دیا ہے کہ وزیر اعظم اور صدر کے احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ جج صاحبان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بہت جلد اس معاملے کا فیصلہ سنا دیں گے ، تحریک انصاف اسمبلیاں تحلیل کر کے معاملے کو لٹکانا چاہتی تھی مگر عدلیہ کے تیور دیکھ کر لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی خواہش پوری نہیں ہو سکے گی۔ سپریم کورٹ نے چونکہ آئین کے مطابق فیصلہ دینا ہے تو سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیوں نہیں ہوئی ہے؟

اس سارے پس منظر میں ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ عمران خان اقتدار کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں حالانکہ اس سے پہلے وہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ انہیں اقتدار پر قائم رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جب وہ اپوزیشن میں تھے اور میاں نواز شریف کے خلاف احتجاج کر رہے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ وزیر اعظم ہوتے اور چند لوگ ان کے خلاف احتجاج کیلئے نکل آتے تو وہ استعفیٰ دے دیتے مگر جب وہ اقتدار پر براجمان ہوئے تو استعفیٰ دینے سے انکاری ہو گئے۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لائے تو وہ مقابلہ کریں گے مگر جب باقاعدہ طور پر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہو گئی تو انہوں نے راہ فرار اختیار کرنا شروع کر دی۔

خیال کیا جا رہا تھا کہ عمران خان ایوان کے اندر تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے مگر اپوزیشن کے مقابلے میں جلسے شروع کر دیئے تاکہ لوگ ان کے حق میں باہر نکلیں لیکن جب لوگ بھی باہر نہ نکلے تو انہوں نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اس کا کیا فائدہ ہو گا۔ ہماری دانست میں عمران خان اپنے تمام کارڈ ظاہر کر چکے ہیں ان کے پاس کوئی ایسا کارڈ نہیں ہے جو انہیں اقتدار واپس دلا سکے یا سیاسی اعتبار سے کوئی فائدہ ہو سکے۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ بیرونی سازش کے بیانیے سے عمران خان کو سیاسی فائدہ ہو گا تو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ یہ بیرونی سازش کا بیانیہ ہی ان کیلئے اقتدار سے محرومی کا سبب بنا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ بیرونی سازش کے بیانیے میں کوئی صداقت نہیں ہے، وہ رسمی ملاقات کی باتیں ہیں جنہیں دھمکی سمجھ لیا گیا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اگر اسے درست بھی تسلیم کر لیا جائے کہ عمران خان کو بیرونی قوتوں نے دھمکی آمیز پیغام دیا ہے تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے اور ان کے سامنے ساری صورتحال پیش کرتے کیونکہ یہ وزیر اعظم کی ذات کی بجائے قومی سلامتی کا معاملہ تھا، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جب خود پر مشکل آن پڑی تو اس خط کا سہارا لیا۔ اسی طرح خارجہ پالیسی کے حوالے سے عمران خان نے جو سخت مؤقف اختیار کیا ہے یہ سننے کی حد تک تو اچھا لگتا ہے مگر عملی طور پر ایسا ہونا آسان نہیں ہے نہ ہی حکومت کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایوان کو اعتماد میں لئے بغیر تنہا فیصلہ کرے یا عسکری قیادت کو نظر انداز کر کے ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی کوشش کرے جو انہیں قبول نہ ہو۔

یہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے عمران خان کو سیاسی میدان میں تنہا کر دیا، بہتر ہوتا وہ حقائق کو تسلیم کر لیتے مگر انہوں نے مزاحمتی رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ راستہ ان کیلئے کس قدر مفید ثابت ہوتا ہے یا انہیں سیاسی اعتبار سے کتنا فائدہ ہوتا ہے اس حوالے سے آئندہ کے چند روز بہت اہم ہیں مگر ایک بات جو واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مخاصمت رکھ کر انہیں عام انتخابات میں کامیابی تو دور کی بات امیدوار کھڑے کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ جو الیکٹ ایبلز دیگر جماعتوں سے آئے تھے وہ واپس جا چکے ہیں۔ یہ طے ہے کہ فوری یا ڈیڑھ سال بعد انتخابات ہونے ہیں، معاملات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس سے باہر نکلنے کا واحد حل عام انتخابات ہیں، آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے یا عوام کے پاس جانے کیلئے تحریک انصاف کے پاس کیا ہے عمران خان کو اس بارے سوچنا ہو گا کیونکہ بیرونی سازش کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button