سابق وزرائے اعظم کی فہرست میں ایک نام کا اضافہ

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے احتجاج کی کال دے کر عمران خان کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر آج قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہے، توقع کی جا رہی تھی کہ ووٹنگ سے پہلے عمران خان اپنا آخری کارڈ ظاہر کریں گے، مگر ووٹنگ سے تین روز پہلے نمبر گیم کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کا پلڑا بھاری دکھائی دیا، سب سے پہلے بلوچستان عوامی پارٹی نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اس کے بعد ایم کیو ایم اپوزیشن کی حمایت میں سامنے آئی جبکہ جہانگیرترین گروپ کے بارے خیال تھا کہ وہ عمران خان کو تنہا نہیں چھوڑے گا مگر انہوں نے بھی پنجاب میں وزرات اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، یوں دیکھا جائے تو وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب بھی تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکلنے کے قوی امکانات ہیں، یہ صورتحال اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عمران خان ووٹنگ سے پہلے اکثریت کھو چکے ہیں جس پر مہر ثبت ہونا باقی ہے۔

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل رکوانے کی کوشش

وزیر اعظم عمران خان نے اتوار تین اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا اعلان کیا مگر اب تحریک انصاف ووٹنگ کے عمل کو رکوانا چاہتی ہے اس مقصد کیلئے سپریم کورٹ میں ایک درخواست سابق اٹارنی جنرل انور منصور اور ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے نعیم الحسن ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے۔ دھمکی آمیز خط سے متعلق سپریم کورٹ میں یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائرکی گئی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایک بین الاقوامی سازش ہے، لہٰذا تحریک عدم اعتماد پر کارروائی روکی جائے۔درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ وزیر اعظم کے خلاف سازش کرنے والے غداری کے زمرے میں آتے ہیں، مختلف ٹی وی اینکرز نے تحریک عدم اعتماد کا پہلے ہی بتا دیا تھا، لندن میں نواز شریف سے خفیہ ملاقاتیں ہوئیں جہاں سازش تیار کی گئی۔ درخواست گزار نعیم الحسن ایڈووکیٹ نے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی روکنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ میموگیٹ طرز پر تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے، سپریم کورٹ کے 3 ججز پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے اور روزانہ کی بنیاد پر اس پر سماعت کی جائے۔ درخواست گزار نے استدعا کی کہ تحقیقات تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ روکنے کا حکم دیا جائے۔

اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کرنے کیلئے ہتھکنڈے

حکومت نے تحریک عدم اعتماد سے پہلے اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کرنے کی پلاننگ کی، اس حوالے سے حکومت نے ایف آئی اے کو ہدایت دی کہ جن مقدمات میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز ضمانت پر ہیں انہیں گرفتار کیا جائے، ضمانت منسوخ کرانے کیلئے عدالت سے رجوع کیا گیا، لاہور کی اسپیشل عدالت سینٹرل کے جج نے شہباز شریف کی ضمانت منسوخی کے لیے ایف آئی اے کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی جس میں ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ شہباز شریف عبوری ضمانت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عدالت نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں بلاجواز توسیع کی لہٰذا درخواست مسترد کی جائے۔ ایف آئی اے کی درخواست پر جج کا کہنا تھا کہ عدالت نے پچھلی سماعت پر شہباز شریف کو خود حاضری معافی دی تھی کیونکہ وہ پیش نہیں ہوئے جس پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ضمانت کے لیے ملزم کو خود پیش ہونا ہوتا ہے، عدالت چاہے تو اس فیصلے کو درست کر سکتی ہے۔ عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی ضمانت منسوخی کی درخواست پر اپوزیشن لیڈر کو 4 اپریل کے لیے نوٹس جاری کیا اور تحریری میں کہا کہ شہباز شریف کا مؤقف سنے بغیر ضمانت منسوخی پر حکم جاری کرنا مناسب نہیں۔

ووٹنگ سے پہلے ملک میں انارکی پھیلانے کا منصوبہ

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز تحریک انصاف رہنماؤں نے عمران خان کے حق میں ملک بھر میں ریلیوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے کارکنان کو ہدایت جاری کرنے کی آڈیو بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ تحریک انصاف کی خاتون رہنما زرتاج گل نے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا کہ کارکنان راستے کو ٹریفک کیلئے بند کر دیں، کارکن اپنے ہاتھوں میں مسلم امہ کے لیڈر اور عمران خان کے حق میں بینرز اٹھائے ہوئے ہوں۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی بھی ایک آڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں وہ کارکنوں کو احتجاج کیلئے نکلنے کی ہدایات جاری کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ کارکن منحرف اراکین کی تصاویر ساتھ رکھیں اور امریکہ کے خلاف بھی نعرے لگائیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ انہوں نے آڈیو کو تسلیم بھی کر لیا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ جہاد میں سب کچھ جائز ہے۔ پرویز خٹک سے منسوب ایک آڈیو بھی زیر گردش ہے جس میں وہ احتجاج کی کال دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے ووٹنگ کے عمل سے پہلے ہی ملک میں انتشار پھیلنے اور ووٹنگ کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے، یہ صورتحال انارکی کا سبب بن سکتی ہے، شاید اسی خطرے کے پیش نظر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے امن و امان کو قائم رکھنے کیلئے اسلام آباد میں فوج سے مدد طلب کی ہے، اطلاعات ہیں کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران ریڈ زون میں فوج تعینات ہوگی۔

وزیر اعظم کی نئی حکمت کتنی مفید ثابت ہو گی؟

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد وزیر اعظم کئی حکمت عملی اختیار کر چکے ہیں، تحریکِ عدم اعتماد کی ووٹنگ سے محض ایک روز قبل وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی حکمتِ عملی ای بار پھر تبدیل کر لی ہے۔ حقائق سامنے آنے باوجود وزیرِ اعظم عمران خان عدم اعتماد کا ووٹ جیتنے کے لیے پر عزم ہیں۔ پی ٹی آئی ارکان اعتماد کا ووٹ دینے اسمبلی جائیں گے، وزیرِ اعظم عمران خان خود بھی اسمبلی میں جائیں گے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی ارکان کو اسمبلی میں نہ جانے کے لیے کہا گیا تھا اور اسمبلی جانے والے پی ٹی آئی ارکان کے خلاف 63 اے کی کارروائی کرنے کے لیے خط لکھا گیا تھا۔ اس سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی اہم ملاقات ہوئی ہے۔اٹارنی جنرل اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے وزیرِ اعظم عمران خان کو بتایا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کو مزید ٹالا نہیں جا سکتا۔ ملاقات کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے تحریکِ عدم اعتماد سے متعلق قانونی مشاورت کی۔ اٹارنی جنرل نے وزیرِ اعظم کو کوئی بھی غیر آئینی اور غیرقانونی اقدام نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے وزیرِ اعظم عمران خان کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کسی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتے۔ وزیر اعظم عمران خان کی نئی حکمت انہیں بچانے میں کس قدر کار گرثابت ہوتی ہے اس فیصلہ آج ہو جائے گا۔

عمران خان اور نواز شریف میں مماثلت

تحریک عدم اعتماد پر تحریک انصاف کی جانب سے ردعمل کو دیکھا جائے تو عمران خان اور نواز شریف میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ 2017ء میں نواز شریف کو عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا تو انہوں نے مؤقف اپنایا مجھے کیوں نکالا؟ آج عمران خان بھی وہی مؤقف اختیار کر رہے ہیں کہ انہیں کیوں نکالا جا رہا ہے؟ حالانکہ عمران خان اپوزیشن جماعتوں کی مزاحمت کا شکار ہوئے مگر انہوں نے اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کی بجائے اسے بیرونی سازش قرار دیا۔ عمران خان اپنے حامیوں کو احتجاج پر ابھار رہے ہیں آخر کیوں، کیا وہ ملک میں انتشار اور دنگا فساد کرانا چاہتے ہیں؟ عمران خان سے پہلے نواز شریف بھی 2017ء میں عدالت سے نااہلی کے بعد ایسا ہی جارحانہ رویہ اپنا چکے ہیں، کیا حاصل وصول ہوا؟ آج اگر عمران خان بھی نواز شریف والا راستہ اختیار کرتے ہیں تو انہیں بھی کچھ حاصل نہ ہو گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button