تحریک انصاف نے نیا بیانیہ لانچ کر دیا
پریڈ گراؤنڈ میں ’’امر بالمعروف‘‘ کے نام سے حکمران جماعت کا جلسہ ہوا، جبکہ پشاور موڑ کے قریب سری نگر ہائی وے پر ’’مہنگائی مکاؤ‘‘ کے نام سے جمعیت علماء اسلام کا جلسہ پیر کے روز بھی جاری رہا، جس میں شام کے وقت مریم نواز اور حمزہ شہباز مسلم لیگ کے شرکاء کے ساتھ شامل ہوئے۔ تادم تحریر مسلم لیگ ن کا قافلہ اسلام آباد کی حدود میں داخل نہیں ہو سکا ہے، دونوں جلسوں میں شرکاء کی تعداد کیا تھی اس بارے حتمی طور پر کچھ کہنے سے پہلے چند باتوں کو سمجھ لینا ضروری ہے۔
اسلام آباد کا پریڈ گراؤنڈ فیض آباد سے شکرپڑیاں تک پھیلا ہوا ہے پریڈ گراؤنڈ کا پورا رقبہ تین سے چار کلو میٹر پر مشتمل ہے جسے مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک حصہ افواج پاکستان کے استعمال میں رہتا ہے وہیں ہر سال 23 مارچ کو فوجی پریڈ بھی ہوتی ہے، یہ حصہ پچاس فیصد سے زیادہ بنتا ہے اس حصے پر جلسہ کے شرکاء کو جانے کی اجازت نہیں تھی اس کے ساتھ والا حصہ جو بالعموم پارکنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے اس جگہ میں تحریک انصاف کو جلسہ کی اجازت دی گئی۔ پریڈ گراؤنڈ کے اس حصے کے ایک کونے میں جلسہ کیلئے سٹیج لگایا گیا اور جس جگہ کو جلسہ گاہ قرار دے کر وہاں پر کرسیاں لگائی گئی تھیں وہ پریڈ گراؤنڈ کے مجموعی رقبے کا دس فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔ اس محدود جگہ پر کتنے لوگ سما سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانے کیلئے افلاطون کی عقل کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسری سمجھنے والی بات یہ ہے کہ زیرو پوائنٹ سے پریڈ گراؤنڈ اور فیض آباد تک پانچ رویہ وسیع سڑک ہے لیکن اس کے باوجود روزانہ شام کے اوقات میں اس شاہراہ پر ٹریفک جام ہو جاتی ہے، ایسا لگتا ہے جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے شام ہونے کا انتظار کیا گیا، اور دانستہ طور پر پریڈ گراؤنڈ کی طرف جانے والی ٹریفک کو کھولا گیا، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب گاڑیاں پریڈ گراؤنڈ کے پاس پہنچیں تو بری طرح ٹریفک جام ہو گئی جنہیں نکلنے کیلئے گھنٹوں لگے، حکمران جماعت نے یہ تاثر دیا کہ یہ سارے لوگ جلسہ میں شرکت کیلئے آئے تھے حالانکہ اس ٹریفک میں پھنسے زیادہ تر عام شہری تھے جنہوں نے فیض آباد جانے کیلئے اسلام آباد ہائی وے کو اختیار کیا تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شام سے پہلے پریڈ گراؤنڈ میں تحریک انصاف کارکنان کی تعداد انتہائی کم تھی، نجی میڈیا نے جب خالی کرسیاں دکھائیں تو نہ معلوم وجوہات کی بنا پر سرکاری ٹی وی کے علاوہ دیگر میڈیا کیلئے کوریج پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جب شام ہوئی تو اسی مجمع کو کئی گنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ جلسہ بہرصورت بڑا تھا مگر اسے لاکھ کا مجمع غیر معمولی کہنا ذرا مشکل ہے۔
شرکاء جلسہ سے خطاب میں تقریباً تمام باتیں وہی تھیں جو پہلے کئی بار کہی اور سنی جا چکی ہیں البتہ شرکاء کو سرپرائز کا انتظار تھا۔ تقریر سے پہلے عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر قائدین کسی قدر پریشان بھی دکھائی دیئے، اس کی وجہ کارکنان کی تعداد کم ہونا تھی یا ق لیگ کے ساتھ ہونے والی ناخوشگوار ملاقات تھی جیسے تحریک انصاف جلسہ میں اتحادیوں کو ساتھ ملانے کا اعلان کرنے والی تھی مگر اسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
عمران خان نے طویل تقریر کی جو دو گھنٹوں سے کچھ کم منٹ پر مشتمل تھی، انہوں نے تقریر کے آخر میں ایک خط لہرایا اس کے علاوہ کوئی سرپرائز نہ تھا۔ عمران خان نے کہا کہ بیرونی قوتوں کی ایماء پر ان کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی ایسی ہی سازش کی گئی تھی۔ اس دوران تحریک انصاف نے بڑی مہارت سے ایک بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی ہے وہ بیانیہ یہ ہے کہ عمران خان مسلم امہ کے لیڈر ہیں، جلسہ گاہ کے اطراف میں مسلم امہ کے لیڈر کے پوسٹر اور بینرز لگائے گئے تھے، عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران بھی اس طرف اشارہ کیا کہ مسلم امہ کیلئے ایک پلیٹ فارم تشکیل دینے پر جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو عالمی سازش کے تحت راستے سے ہٹا دیا گیا اسی طرح ان کے خلاف بھی عالمی سطح پر سازش کی گئی ہے جس میں ملک کے لوگ استعمال ہو رہے ہیں۔
عمران خان کی طرف سے عالمی سازش اور جلسہ میں خط لہرانے کے بعد یہ سوال بڑی شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ اس خط میں کیا تھا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس خط کی تفصیلات سامنے لانے کی بجائے سسپنس باقی کیوں رکھا گیا ہے؟ تحریک انصاف کے ناقدین کہہ رہے ہیں کہ اس خط میں کچھ بھی نہیں ہے اگر کچھ ہوتا تو اسے پیش کرنے کا اس سے بہترین وقت نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت تحریک انصاف مشکل میں ہے اسے اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔
شہر اقتدار میں اسی روز جمعیت علماء اسلام کا ’’مہنگائی مکاؤ‘‘ کے نام سے جلسہ بھی ہوا جس کیلئے جی نائن کے سامنے پشاور موڑ کے قریب جگہ مختص کی گئی تھی، تحریک انصاف کے برخلاف جمعیت کے کارکنان شام سے پہلے ہی جلسہ گاہ میں موجود تھے، ان کی تعداد کیا تھی اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ایک منظم جلسہ تھا جس میں کارکنان کے آرام کیلئے خیمے نصب کئے گئے تھے اور کھانے کا پورا بندوبست موجود تھا حتی کہ عارضی باتھ روم بھی بنائے گئے تھے، اس جلسہ میں کارکنان کی بڑی تعداد شامل تھی۔
مولانا فضل الرحمان خطاب سے کافی دیر پہلے کنٹینر پر آ چکے تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کینٹینر میں بیٹھ کر عمران خان کی تقریر سن رہے تھے تاکہ اسی کے مطابق جواب دیا جا سکے۔ جب وہ سٹیج پر خطاب کیلئے آئے تو انہوں نے عمران خان پر تنقید کیلئے انہی کی تقریر کا سہارا لیا، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جو مشکوک خط لہرایا گیا ہے اس میں کیا ہے یہ واضح کیا جائے۔ انہوں نے خط کو پرچی اور ڈرامہ قرار دیا۔یہ تھا شہر اقتدار میں ہونے والے جلسوں کا احوال، اس کے علاوہ قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے، یہ اجلاس بہت اہم ہے تحریک عدم اعتماد میں کیا پیش رفت ہوتی ہے اس کیلئے کچھ انتظار کرنا ہوگا۔