شکست خوردہ کپتان کا انوکھا سرپرائز؟
گریٹر اقبال پارک سے شروع ہونے والا سفر ڈی چوک سے ہوتا ہوا پریڈ گرائونڈ میں اختتام کو پہنچاہے یہ ایک ہارے ہوئے شخص کی تقریر تھی شکست اس کے چہرے سے عیاں تھی، پانچ صوبائی حکومتیں، وفاقی حکومت، وزراء و ممبران اسمبلی اگر تمام ترسرکاری وسائل خرچ کر کے پچاس ہزار بندے بھی جمع نہیں کر سکے تو اسے فتح نہیں شکست ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔
عمران خان نے تو دعوی کیا تھا کہ وہ دس لاکھ افراد جمع کریں گے مگر کارکنوں نے ان کی آواز پر لبیک نہیں کہا اگرچہ ابھی بھی کچھ لوگ بضد ہیں کہ لوگ عمران خان پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔ چند دن قبل پی ٹی آئی حکومت کے وزراء یہ کہتے سنے گئے تھے کہ ان کے جو اراکین منحرف ہوئے ہیں انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے عوام کے سمندر سے گزر کر اسمبلی میں جانا گا، جس کے بعد منحرف اراکین اور سیاسی جماعتوں میں کھلبلی مچ گئی تھی۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے اعلان کیا تھا کہ وہ لال حویلی سے ریلی کی قیادت کرتے ہوئے پریڈ گرائونڈ پہنچیں گے، کراچی سے کارکنوں کو لانے کے لیے خصوصی ٹرین چلائی گئی، حکومت کی تمام مشینری جلسے کی کامیابی کے لیے جھونک دی گئی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے حکومتی زعماء سرکاری گاڑیوں کو پی ٹی آئی کے جھنڈوں سے سجا کر اسلام آباد پہنچے مگر بندے کم اور گاڑیاں زیادہ تھیں۔
اسلام آباد جلسے کی کامیابی کے لیے وزیراعظم نے ملک کے مختلف مقامات پربڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا اور عوامی رابطہ مہم چلائی جس سے محسوس یہ ہو رہا تھا کہ شاید ملکی تاریخ کاسب سے بڑا جلسہ ہونے جا رہا ہے۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے ایک ویڈیو پیغام میں عوام سے اس جلسے میں شرکت کی درخواست کی۔ عمران خان نے اس جلسے میں سرپرائز دینے کا بھی اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترپ کا پتہ وہ اسلام آباد جلسے میں کھولیں گے۔
وزیراعظم نے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار سے ملاقات کی جعلی خبر بھی چلوائی اور یہ تاثر دیا کہ چوہدر ی نثار پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں مگر نہ چوہدر ی نثار علی ان کے جلسے میں شریک ہوئے، نہ اتحادی ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ نہ ایمپائر کی انگلی اٹھی نہ پنڈی سے کوئی فون کال آئی۔ نہ جنتر منتر چلا اور نہ ہی کوئی جہاز آیا البتہ ایک نامعلوم خط برآمد ہوا۔ پریڈ گرائونڈ میں جتنے لوگ جمع ہوئے اسے کسی صورت کامیاب جلسہ نہیں کہا جا سکتا۔
2018کے الیکشن میں اسلام آباد کی تین سیٹوں سے کامیاب ہونے والے پی ٹی آئی ممبران نے اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے جس میں پارٹی کے موجودہ سیکرٹری جنرل اسد عمر بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد کے ممبران اسمبلی اپنے حاصل کردہ ووٹوں کے آدھے بندے بھی گھروں سے نکال لیتے تو پریڈ گرائونڈ بھر جاتا۔
پنڈی، مری اورگرد و نواح کے لوگ بھی اگر اسلام آباد کا رخ کرتے تو شاید تل دھرنے کی جگہ نہ ملتی۔مگر پی ٹی آئی کے رہنمائوں پر لوگ اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ ان کے جلسے میں شریک نہیں ہوئے۔ پی ٹی آئی کی بدنصیبی دیکھیئے کہ امربالمعروف کے نام سے منعقدہ جلسے میں انہیں کوئی قاری تلاوت قرآن کے لیے میسر نہیں تھا اور نہ ہی اذان دینے کے لیے کوئی سامنے آیا اسی لیے جلسہ منتظمین نے تلاوت اور اذان ریکارڈ شدہ چلائی مگر مغرب کی بجائے فجر کی اذان کی ٹیپ ریکارڈنگ چلا دی جو اس وقت سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
امربالمعروف جلسے میں کوئی بڑا مذہبی رہنماء خطاب کرتے ہوئے نظر نہیں آیا جو مذہبی جماعتیں حکومت کی اتحادی ہیں وہ بھی جلسے سے غائب تھیں البتہ وہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے لیے مخالفین سے جہاد کرتے ضرور نظر آئے۔
اس جلسے کا دوسرا اہم ترین رخ سرپرائز تھا جس کا دو ہفتوں سے راگ الاپا جا رہا تھا تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وزیر اعظم مسلسل یہ فرما رہے تھے کہ 27مارچ کے جلسے میں وہ سرپرائز دیں گے۔ مگر جلسے کے شرکاء اور قوم سرپرائز کے انتظار میں ہی بیٹھی رہی، خطاب کے اختتام پر ہر ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ اس تقریر میں سرپرائز والی بات کون سی تھی؟ ایک خط زیر بحث ہے اگر یہ خط ہی سرپرائز تھا تو بہتر تھا کہ وزراء ایک پریس کانفرنس میں اس کا اظہار کرتے۔ خط بھی ایسا کہ جس کے مندرجات ابھی خفیہ ہیں، اس خط کو ڈرامائی شکل دینے کی ناکام کوشش کی گئی۔
البتہ جلسے سے قبل شازین بگٹی کا علیحدہ ہونا حکمراں جماعت کے لیے بڑا دھچکا ضرور تھا۔ عمران خان کے سرپرائز دینے کے اعلان نے پوری قوم اور اپنے کارکنوں کو جس طرح ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ وہ طویل عرصے سے بڑی مہارت سے یہ کام کر رہے ہیں۔
2014کے دھرنے میں بھی وہ ہر روز یہ اعلان کرتے تھے کہ ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے کل ایمپائر کی انگلی اٹھ جائے گی اسی طرح انتخابات میں بھی انہوں نے قوم سے کئی وع دے اور اعلانات کیے، حکومت ملنے کے بعد بھی ان کی یہ روش برقرار رہی مگر ان کے وعدے اور اعلانات کبھی پورے نہیں ہوئے اور نہ ہی قوم کو تبدیلی سرکار کا کوئی سرپرائز ملا جن لوگوں نے تبدیلی کے جھانسے میں آ کر کسی سرپرائز کے لیے ووٹ دیا تھا وہ بھی اپنے فیصلے پر نادم نظر آتے ہیں۔
ایک مرتبہ پھر وزیراعظم کی تقریر سیاسی مخالفین پر الزام تراشی اور ان کی توہین و تضحیک ہی پر مشتمل تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بیرون ملک سے پیسوں کے ذریعے ان کی حکومت گرانے کی سازش کا ذکر کیا جو اس سے پہلے بھی وہ کر چکے ہیں مگر اس حوالے سے انہوں نے کچھ نہیں بتایا کہ کون لوگ اس میں ملوث ہیں، پیسہ کہاں سے آیا، انہیں کس نے تحریری طور پر دھمکی دی ہے اور بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر کیوں کر یہ دھمکی دی گئی ہے؟
وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کا خیال تھا کہ اسلام آباد کا جلسہ انہیں سیاسی طور پر طاقت بخشے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ شاید اس جلسے سے وہ کسی پر اپنی دھاگ بٹھانا چاہتے تھے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا یا کسی کو پیغام دینا چاہتے تھے مگر ایسا کوئی پیغام نہیں دیا جا سکا۔ پریڈ گرائونڈ جلسے کی تقریر سے عمران خان نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ میں نے امریکہ مخالفت کا نعرہ لگایا ہے مسلمانوں کو اکٹھا کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیئے میرے خلاف عالمی استعمار سازشیں کر رہا ہے، مجھے ہٹانا چاہتا ہے۔ دیکھ لو بھٹو نے مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ کیا ہوا۔ اس کو عالمی استعمار نے نشان عبرت بنا دیا۔ چونکہ میں بھی یہی کام کر رہا ہوں اس لئے سب میرے خلاف سازشیں کر کے مجھے ہٹانا چاہتے ہیں اور تحریک عدم اعتماد اس کی ایک کڑی ہے۔
عمران خان اور ان کے ہمنوائوں نے سیاسی جنگ کو حق و باطل کا معرکہ بنانے کی کوشش کی اور ٹرمپ کارڈ کھیلنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام رہے اپوزیشن انہیں پارلیمنٹ میں بلا رہی ہے مگر وہ پارلیمنٹ سے بھاگ رہے ہیں، اپوزیشن انہیں کہتی رہی کہ پارلیمنٹ کی جنگ ہے اس کو پارلیمنٹ میں لڑیں۔ اس کو سڑکوں پر مت لے کر آئیں۔ مگر وہ اس جنگ میں سڑکوں پر لے کر آئے اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قوم نے یہ منظر دیکھا کہ حکومت اپوزیشن کے خلاف جلسے کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان جلسوں سے تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی؟