امر بالمعروف کا نیا مذہبی کارڈ

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سےحکومت کے آخری جلسے کو امربالمعروف کا نام دیا گیا ہے اور مانسہرہ میں انہوں نے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کو طعنہ دیا ہے کہ وہ تیس سال سے اسلام کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ عمران خان اقتدار بچانے کے لیے جس بے دردی سے مذہبی کارڈ کھیل رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ۔

اسلام آباد سمیت پورے ملک میں ایسے بینرز آویزاں کیے گئے ہیں کہ جس میں ان کی شخصیت کو عالم اسلام کے رہنماء اور حرمت رسول کا پاسبان کے القابات سے نوازا گیا ہے عمران اور ان کے حامی اسلامی اصلاحات کو سیاسی مقاصد کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کے رفقاء ساڑھے تین سال کے اقتدار کے بعد یہ سمجھنے لگے ہیں کہ سیاست کے لیے مذہب کارڈ کا استعمال صرف ان کے لیے جائز ہے باقیوں کے لیے جائز نہیں۔

دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن ایک مذہبی سیاستی جماعت کے سربراہ ہیں عالم دین ہیں، ان کے والد بھی عالم وہ بھی عالم اور ان کے بیٹے بھی مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں، ان کا حلیہ مذہبی ہے ان کے سر پر رکھی پگڑی ان کا مذہبی تشخص واضح کرتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ جس جماعت کی سربراہ ہیں پہلے دن سے اس کاسربراہ داڑھی اورپگڑھی والاچلاآرہاہے،مولانافضل الرحمن کی جماعت میں لاکھوں کی تعداد میں علماء کرام، مشائخ، شیوخ الحدیث، حفاظ، قراء موجود ہیں انہوں نے سینکڑوں مذہبی لوگوں کو پارلیمنٹ کا ممبر بنایا اس لیے ان کا تو پھر بھی کچھ ناکچھ حق بنتا ہے کہ وہ اسلام کے نام پر سیاست کریں مگر مولانافضل الرحمن اور دیگر مذہبی جماعتیں اس وقت مذہب کے نام پر سیاست نہیں کر رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے خلاف جو پہلا لانگ مارچ کیا تھا اس کاعنوان آزادی مارچ اور اس مرتبہ انہوں نے جو مارچ کیا ہے اس کانام مہنگائی مارچ رکھا ہے یہ پہلا موقع ہے کہ مذہبی جماعتیں اپنی تحریک کے لیے سیاسی نعرے اور اصطلاحات استعمال کر رہی ہیں اور ایک سیاسی جماعت مذہب کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ خان صاحب یا ان کی جماعت میں میں ایسی کیا خصوصیات ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر سیاست کریں؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ مذہب کا استعمال عمران خان کا حق ہے تو پھر سوال بنتا ہے کہ اسلام یا مذہب کے لیے انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کیا کیا ہے کہ وہ اب یہ کارڈ استعمال کر رہے ہیں؟

عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے مذہبی نعرہ لگایا اور کہا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنائیں گے اس نعرے کے تقدس کو جس طرح پامال کیا ہے اس پر علماء کرام و مفتیان کو اپنی رائے دینا چاہیے۔ اس کے بعد جونہی انہیں موقع ملا تو انہوں نے سب سے پہلے توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ کو بیرون ملک بھیجا اور اس کا کریڈٹ بھی حاصل کیا اس کے ساتھ ساتھ ان کے دورحکومت میں ایک درجن کے قریب توہین رسالت کے ملزمان کو رہا گیا اس کے باوجود امریکہ نے ہم پر مذہبی آزادی کے حوالے سے الزامات لگائے۔
پی ٹی آئی کے دور میں دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کی حکومت میں حج مہنگا ہوا صرف مہنگاہی نہیں ہوا بلکہ کئی سو گنا حج اخراجات بڑھ گئے یہ تو کرونا کی وبا آ گئی جس کی وجہ سے سعودی حکومت نے حج کو محدود کر دیا ورنہ جس رفتار سے پی ٹی آئی حکومت حج مہنگا کر رہی تھی محسوس یہ ہو رہا تھا کہ عام آدمی کے لیے حج جیسی عبادت کرنا ناممکن بنا دیا جائے گا۔

حج کیا آسان کرتا الٹا پی ٹی آئی حکومت نے تو حج فارم سے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا حلف نامہ حذف کیا اور قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کر لیا تھا۔ یہ کریڈٹ بھی اس حکومت کو جاتا ہے کہ مساجد کو گرانے کے احکامات سپریم کورٹ سے آئے، مسجد میں وفاقی وزیر کی سرپرستی میں ڈانس اور میوزک شو ہوا۔ اللہ کے گھر میں ڈرامے کی شوٹنگ ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عمران خان کے دور حکومت کا نتیجہ ہے کہ سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے کا کریڈٹ حاصل کیا گیا۔

اسلام آباد میں مندر بنانے کی کوشش کی گئی، ایک قادیانی کو اقتصادی کونسل میں شامل کیا گیا، این جی اوز کی ایماء پر اٹھارہ سال کی کم عمری کی شادی کو ناجائز قرار دیا گیا اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ یہ کریڈٹ بھی خان صاحب کو جاتا ہے کہ انہوں نے لندن کے میئر کے الیکشن میں مسلمان امیدوار صادق خان کے مقابلے میں ایک یہودی اور اپنے سابق سالے زیک گولڈ سمتھ کی انتخابی مہم چلائی۔

پاکستان تحریک انصاف کو حکومت ملنے کے بعدباوجود علماء اور قابل قدر مذہبی جماعتوں کی حمایت نہیں مل سکی اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کی مذہبی جماعتیں اور مذہبی عوام عمران خان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ واحد ریاست مدینہ ہے جس کی وزارت مذہبی امور کارکردگی کے اعتبار سے پہلے دس نمبروں میں بھی شامل نہیں ہے۔ ان کے دور حکومت میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو ہوئی جس میں اقربا پروری اور میرٹ کی پامالی کی گئی ہے جس پر مختلف اداروں نے اعتراضات اٹھائے۔

خان صاحب یہ کریڈٹ لیتے ہیں کہ انہوں نے رحمة اللعالمین اتھارٹی بنا کر کارنامہ سرانجام دیا ہے واقعی کارنامہ ہو سکتا تھا اگر اس میں قابل اور اہل لوگوں کو شامل کیا جاتا۔ ریاست مدینہ بنانے والے نے قوم سے کیا گیا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا جھوٹ اور وعدہ خلافی کے ریکارڈ قائم کیے بلکہ اپنی بات سے منحرف ہونے کو یوٹرن کا نام دیا کیا ریاست مدینہ میں ایسے عمل کی کوئی گنجائش نکلتی ہے؟

ان کے دور حکومت میں مدارس کا گھیرا تنگ کیا گیا ایف اے ٹی ایف کی ایماء پر مساجد کو تالے لگانے کی کوشش کی گئی مدارس کی قوت کو تقسیم کیا گیا عمران خان مذہبی کارڈ اور مذہبی نعرے پر اپنی سیاست چلا رہے ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کا سب سے زیادہ راگ الاپا جاتا ہے مگر موازنہ کیا جائے تو ان کے دور حکومت میں سب سے زیادہ اس حوالے سے پر تشدد واقعات ہوئے۔

یکساں نصاب تعلیم کا شور وغوغا ہے مگر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین کو نصاب میں قرآن و حدیث کے متعلق غلطیوں کی نشاندہی کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ عمران خان اپنے آپ کو مذہب پسند ثابت کرنے کے لیے کبھی کسی درگاہ پر سجدہ ریز ہوتے نظر آتے ہیں اور کبھی خانہ کعبہ کا دروازہ کھولنے کو اپنی سعادت قرار دیتے ہیں مدینہ میں ننگے پائوں چلنے کی ویڈیوز کو شیئرکر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سعادت صرف انہیں حاصل ہوئی ہے۔ مذہبی اقدامات کس طرح سے اپنی سیاست کے لیے استعمال کر رہے ہیں اس کی واقعی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

سوال یہ ہوتا ہے کہ امربالمعروف کے نام پر وہ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں یا کس کو بلیک میل کر رہے ہیں؟ اور سیاسی مقاصد کے لیے لوگ ان کے دھوکے میں کیونکر آئیں؟ اسلاموفوبیا کی قرارداد کو اپنا کریڈٹ گردانتے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ فرانس کی حکومت کی طرف سے گستاخی کے بعد ملک کے عوام کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرو مگر عمران خان میں ہمت نہیں ہوئی کہ جس ملک کا سفیر اسلام آباد میں موجود ہی نہیں اس کے سفیر کو نکالن اتو درکنار بیان دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی حکومت ٹی ایل پی سے ایک معاہدہ کر کے بھی اس سے منحرف ہوگئی، اب او آئی سی کے ایک روٹین کے سالانہ اجلاس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں یہ اجلاس 2021 میں پاکستان میں ہونا طے پایا تھا مگر حکومت کی نااہلی اور کرونا کی وجہ سے وہ ایک سال کی تاخیر سے منعقد ہوا۔

سوال یہ ہے کہ آج جب ان کے ہاتھ سے اقتدار جا رہاہے تو وہ قوم سے اپیل کر رہے ہیں کہ قوم نکلے، سوال ہے کہ کیوں قوم نکلے؟ اگر مذہبی ایشوز پر ہی قوم نے باہرنکلنا ہے تو پھر یہ بیانیہ مذہبی جماعتیں زیادہ بہتر انداز میں پیش کر سکتی ہیں اور کر رہی ہیں اور اگر ملک کے مسائل کے حل کے لیے قوم نے باہر نکلنا ہے تو پھر آپ تو اس محاذ پر بھی ناکام ہو چکے ہیں۔

کیا قوم مہنگائی کے عذاب کو برقرار رکھنے، کرپشن کا بازار گرم رکھنے،گالی گلوچ کا کلچر کورواج دینے، ملک کو قرضوں کے دلدل میں دھکیلنے، قومی اداروں کو تباہ کرنے،ایک بیمار ذہن خود پرست اور ضد کی انا کو تسکین دینے کے لیے باہرآئے!سوری۔ اب بھی اگر کسی کے سمجھ میں نہیں آتا تو فرشتے قبر میں سمجھائیں گے لیکن کچھ فائدہ نہ ہو گا یہ قیامت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے کہ جس بندہ کے پیچھے ان کے اپنے ایم این اے اور ایم پی اے کھڑے ہونے کو تیار نہیں اس کے پیچھے قوم کیسے کھڑی ہو؟

ایک شخص کہتا پھر رہا ہے کہ اس نے امت مسلمہ کو اکھٹا کیا اور حالات یہ ہیں کہ اس سے اپنی پارٹی کے لوٹے ہی اکھٹے نہیں ہو رہے ہیں۔ جس پر ہارس ٹریڈنگ اور فارن فنڈنگ کیس ہے اب تک اس سے بھاگ رہے ہیں فارن فنڈنگ کے72 اکائونٹ نکلے جبکہ بھارت اور اسرائیل بھی فنڈنگ کرتا رہا وہ دوسرو ں پر الزام لگا رہا ہے کہ انہوں نے منڈیاں لگائی ہوئی ہیں۔ جو رہنماء پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، ایک ارب درخت، مرغی، انڈے، کٹے دینے کے وعدے پرآیا تھا۔ وہ تو نہ دے سکا مگر قوم یوتھ27مارچ کو اس سے سرپرائز کی امید لگائے بیٹھی ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button