بچوں کا مستقبل ضائع کرنے میں اساتذہ کا کردار

کمال یہ نہیں کہ ذہین بچوں کو ایڈمیشن دے کر فخریہ کہا جائے کہ ہمارے 90 فیصد بچوں نے اے پلس گریڈ حاصل کیا ہے بلکہ استاذ کا کمال یہ ہے کہ کند ذہن اور پڑھائی سے چالو بچوں کو ضائع ہونے سے بچا لے۔ اگر استاذ اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بھانپ لیتا ہے کہ فلاں بچہ ذہنی طور ہر کمزور، لاپروا یا اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا ہے اور انہی نکات کو سامنے رکھ کر وہ نرمی کا مظاہرہ کرتا ہے جس سے بچے کا مستقبل ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے سبھی بچے ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں، ذہین بچے بہت جلد سیکھتے ہیں، بعض بچے دوگنی توجہ کے بعد سیکھتے ہیں جبکہ اکثر بچوں کو بھرپور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں پرائمری لیول تک کا تعلیمی نظام بہت کمزور ہے، ہمارا پرائمری نظام تعلیم ایسے اساتذہ کے سپرد ہے جنہیں بچوں کی ذہنی کیفیت کا درست اندازہ نہیں ہو پاتا ہے حالانکہ یہی وقت بچوں کی صلاحیتوں کر پرکھنے کا ہوتا ہے۔ جرمنی کے بارے پڑھا کہ وہاں پر پرائمری اسکول کے اساتذہ پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ ماہر نفسیات ہوتے ہیں تاکہ بچوں کی نفسیات کو سمجھ کر ان کے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔

اس کے برعکس ہم پاکستان کے پرائمری اسکولوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اساتذہ کی بھرتی کا معیار نہایت پست ہے، پرائیویٹ اداروں کی حالت سرکاری کی نسبت خستہ ہے جہاں میٹرک فیل اساتذہ بھی موجود ہیں جنہیں کم تنخواہ پر رکھ لیا جاتا ہے جس طرح سرکاری اساتذہ کی بھرتی کا طریقہ ہے ایسے ہی پرائیویٹ اساتذہ کیلئے بھی میرٹ اور طریقہ کار ہونا چاہئے کیونکہ یہ بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے جس پر ریاست کو کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔

ہماری دانست میں ہر بچے کو خاص توجہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اگر کلاس تیس بچوں پر مشتمل ہے تو بڑی تعداد سبق کے دوران ہی سمجھ جاتی ہے، اسکول سے ہٹ کر بھی ہم جائزہ لے سکتے ہیں کہ بعض بچوں کیلئے معمولی اشارہ کافی ہوتا ہے، ہاں کچھ بچوں کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اساتذہ کی اکثریت ایسے توجہ طلب بچوں پر توجہ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتی ہے، والدین ٹیوشن رکھیں یا خود توجہ دیں سکول کے اساتذہ صرف نصاب پڑھانے تک محدود رہتے ہیں۔

یہ کہانی اسکول میں ایڈمیشن سے شروع ہوتی ہے، جب پہلی کلاس کے بچے کو یہ کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے کہ بچہ ہمارے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے، غضب خدا کا پہلی کلاس کے بچے کو کیسے مسترد کیا جا سکتا ہے، جس نے ابھی سیکھنا شروع کرنا ہے اس کیلئے سخت معیار کیوں بنایا گیا ہے؟ ایڈمیشن ملنے کے بعد اساتذہ بھی اسی نقش قدم پر چلتے ہیں جو سکول نے اپنے لئے خود ساختہ معیار طے کر رکھا ہوتا ہے۔

ہم نے اس کی کھوج لگانے کی کوشش کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ معیار کے پس پردہ اصل کہانی یہ ہے کہ کچھ سکولوں نے نصاب کو ایڈوانس کر دیا ہے یعنی سات سال کی عمر میں بچہ جس قدر سیکھ سکتا ہے پانچ سال کے بچوں کو وہی نصاب پڑھا کر انہیں ایڈوانس کر دیا گیا ہے، ابھی تو تین سال کم عمر کے بچوں کیلئے بھی تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں یہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے، جب بعض ذہین بچے اسکولوں کے ایڈوانس معیار پر پورا اترے تو انہوں نے اسے مستقل بنیادوں پر لاگو کر دیا حالانکہ جن اسکولوں کا معیار بلند ہوتا ہے وہاں پر بھی ساٹھ ستر فیصد نمبر حاصل کرنے والے طالب علم موجود ہوتے ہیں جن کی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے یا والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ سال پورا ہونے کے بعد وہ اپنے بچوں کو کسی دوسرے اسکول میں داخل کرائیں۔

یوں اساتذہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اسکول کے اصول و ضوابط کو سامنے رکھ کر پڑھائیں۔ اے گریڈ کا حصول والدین کی خواہش کی بجائے اسکولوں کی ڈیمانڈ بن چکا ہے، اسے ان طالب علموں کیلئے نفسیاتی مسئلہ بنا دیا گیا ہے جو اوسط درجہ ذہن کے حامل ہوتے ہیں یا انہیں تعلیم کا مناسب ماحول میسر نہیں آیا ہوتا ہے۔

تعلیمی معاملے میں نصاب کو ایڈوانس کر دینا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے نہ ہی اس کا معیار تعلیم سے کوئی تعلق ہے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہو رہا ہے، فن لینڈ تعلیمی اعتبار سے سب سے آگے ہیں مگر وہاں پر سات سال سے پہلے کوئی اسکول ہی نہیں ہے، سات سال کے بعد جو تعلیمی نظام ہے وہ نہایت فرینڈلی ہے، ایک آدھ مضمون سے تعلیم کا آغاز کیا جاتا ہے اور بچوں کو ذہنی طور پر سازگار ماحول فراہم کیا جاتا ہے، ریاضی کی استاذ سے پوچھا گیا کہ آپ طلباء کو کیا پڑھاتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ طلباء کو خوش رہنا سکھاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں غلط چیزوں کو رواج دے دیا گیا ہے اور اس پر ہم فخر بھی کر رہے ہیں۔

سکولوں کی جانب سے مسابقت کیلئے اعلیٰ معیار سیٹ کرنے کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر جو بچہ تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جائے اس کے پیچھے زیادہ تر اساتذہ کا تلخ رویہ کار فرما ہوتا ہے اس لئے ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں پائی جانے والی اس بڑی خامی کا ازالہ کرنا چاہئے۔اساتذہ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جو بچہ آج نہیں سیکھ رہا ہے ہو سکتا ہے وہ کل سیکھ لے، ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ابتدائی عمر میں لاپروائی کا مظاہرہ کرنے والے بچے عمر میں پختگی آتے ہی آگے نکل گئے۔

اساتذہ کی تربیت میں اُنہیں یہ بات باور کرا دی جائے کہ وہ بچوں میں امید پیدا کریں، بچوں کو اچھے مستقبل کی نوید سنائیں، انہیں خوش رکھیں اور موقع فراہم کریں، بچوں کو جب ایسا سازگار ماحول میسر آئے گا تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوں گی۔ اس ضمن میں ہمیں مغربی ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے جہاں پر بچوں کو سارا دن کتاب پر مغز ماری کی بجائے ریلکس رکھا جاتا ہے طلباء جب خوش ہوتے ہیں تو وہ ذہنی طور پر آسودہ ہوتے ہیں یہی سبب ہے کہ مغرب میں اعلیٰ دماغوں کے باعث سائنسی ترقی ہو رہی جبکہ ہمارے ہاں تعلیم سے بیزاری رواج پا رہی ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button