عمران خان کی آخری چال کیا ہو گی؟
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے ہی ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں جو حکمران جماعت کی ناکامی کی پیش گوئی کر رہے ہیں، تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے کھل کر سامنے آنے سے پہلے کہا جا رہا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہے مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ اچانک تبدیلی کیسے آئی یا اندرون خانہ کچھ پک رہا تھا جس کے بارے حکومت کو کانوں کان خبر نہ ہوئی؟
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جب تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تو اس سے قبل وہ ہوم ورک مکمل کر چکے تھے، اس کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کو مشکل کا سامنا تھا، جب تحریک عدم اعتماد باقاعدہ طور پر قومی اسمبلی سکرٹریٹ میں جمع ہو گئی تو اعصاب کا کھیل شروع ہو گیا اس اعصاب شکن کھیل میں جو فریق زیادہ غلطیاں کرتا ہے وہ خسارے میں رہتا ہے، اس حوالے سے دیکھا جائے تو اپوزیشن کے مقابلے میں حکومت نے زیادہ غلطیاں کی ہیں، پارلیمنٹ لاجز میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے نے حکومت کو کافی حد تک پیچھے دھکیل دیا اس ایکشن کی قطعی ضرورت نہ تھی، تحریک انصاف کے منحرف رہنما راجہ ریاض نے پارلیمنٹ لاجز واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کل کلاں ہمارے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جا سکتا ہے اس لئے ہم تحریک انصاف کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
اسی طرح تحریک انصاف کے کئی منحرف رہنماؤں نے اظہار کیا ہے کہ عمران خان جیسے لیڈر کے ساتھ چلنا ان کے لئے آسان نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے اور منحرف رہنماؤں کے لئے سخت لہجہ اپنایا ہے، حالانکہ ایسے مواقع پر لچک کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اور صلح جو شخصیات کو سامنے لا کر کشیدگی کم کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے مگر تحریک انصاف کی طرف سے جارحانہ رویہ اپنا کر معاملہ خراب کر دیا ہے۔
اب جبکہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے ہی اپوزیشن کی اکثریت واضح ہو چکی ہے تو وزیر اعظم کون سا راستہ اختیار کریں گے، کیا وہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرائیں گے یا استعفیٰ پیش کریں گے؟ ایک تیسرے آپشن پر بھی بات ہو رہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ایمرجنسی لگا دیں گے۔ ایمرجنسی لگانے کیلئے صاف ظاہر ہے کہ کوئی جواز چاہئے تو مؤقف اختیار کیا جائے گا کہ ملکی حالات خراب ہونے کی وجہ سے ایمرجنسی لگانی پڑی ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم اپنے ایگزیکٹو اختیارات استعمال کر سکتے ہیں، اپوزیشن جماعتیں حکومت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گی اور ان کے حق میں فیصلہ آ جائے گا، لیکن تب تک کافی وقت گزر چکا ہو گا اور وزیر اعظم عمران خان موجودہ حالات میں یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے اپوزیشن کو وقتی طور پر ہی سہی پیچھے دھکیل دیا جائے۔
اتحادیوں کی جانب سے عدم تعاون اور منحرف رہنماؤں کے پاس حکومت کے پاس محدود راستے رہ گئے ہیں ان میں سے جو راستہ بھی اختیار کیا جائے تو غیر آئینی کہلائے گا جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا اقدام آئینی ہو گا، اقتدار کو بچانے کیلئے اگر وزیر اعظم عمران خان غیر آئینی راستے کا انتخاب کرتے ہیں تو سیاسی ساکھ کھو دیں گے، جس کا نقصان بھی بہر صورت تحریک انصاف کو اٹھانا پڑے گا۔ معاملات اس نہج تک کیسے پہنچے اور اس کا ذمہ دار کون ہے یہ بہت اہم ہے۔
تحریک انصاف نے اپنے اراکین کو حکومت کے ساتھ جڑے رہنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے، جہانگیر ترین گروپ اور ایسے اراکین جو جہانگیر کے قریب تصور کئے جاتے تھے مگر انہیں نظر انداز کیا گیا، اسی طرح کئی اراکین کا عثمان بزدار سے ناراض ہونا بھی ہے۔ ایسے اراکین جنوبی پنجاب اور فیصل آباد ڈویژن سے تعلق رکھتے ہیں۔ عثمان بزدار کے مقابلے میں ڈیرہ غازی خان کے بڑے قبائل کے سرداروں کو عثمان بزدار سے متعلق معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اندر ہی اندر بڑے قبائل کو پس پردہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں چونکہ بڑے سردار سیاست میں قد آور تصور کئے جاتے ہیں اس لئے سردار عثمان بزدار کا منصوبہ سامنے آ گیا جس کی بنیاد پر ڈیرہ غازی خان کے بڑے سردار عثمان بزدار کے خلاف ہو گئے، یہ تھے وہ عوامل جس کی بنا پر تحریک انصاف کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب دیکھتے ہیں تحریک انصاف کے پاس کیا آپشن ہیں اور وزیراعظم عمران خان کیا کرنے جا رہے ہیں۔
سندھ میں گورنر راج کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، اس مقصد کیلئے وفاقی وزارت داخلہ کو ٹاسک دے دیا گیا ہے، جبکہ منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے منحرف اسپیکر قومی اسمبلی اور قانونی ٹیم کو منحرف اراکین کے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایات کی ہیں۔
منحرف اراکین کے خلاف قانونی کارروائی کیلئے حکومت کو انتظار کرنا ہو گا کیونکہ رائے شماری سے پہلے منحرف اراکین کے خلاف قانونی کارروانی آسان نہیں ہو گی، جب کارروائی عمل میں لائی جائے گی تو تحریک انصاف کو اس کا فائدہ نہیں ہو گا۔ اس بارے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار الیکشن کمیشن کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور ارکان پارلیمنٹ کی مبینہ فلور کراسنگ کے سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہا۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی رکن پارلیمنٹ کے انحراف پر الیکشن کمیشن کا کردار پارٹی سربراہ اور اسپیکرکی طرف سے ڈیکلیریشن موصول ہونے کے بعد شروع ہوگا، پارٹی سربراہ متعلقہ ممبر پارلیمنٹ کے انحراف سے متعلق ڈیکلیریشن جاری کرے گا جو اسپیکر قومی اسمبلی اور چیف الیکشن کمشنر کو بھجوایا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پارٹی سربراہ متعلقہ ممبرکو وضاحت کا موقع دے گا اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی 2 دن کے اندر انحراف سے متعلق ڈیکلیریشن چیف الیکشن کمشنر کو بھجوائے گا، جسے کمیشن کے سامنے پیش کرکے 30 دن کے اندر فیصلہ کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کا فوری نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔
تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے حالات ناخوشگوار ہو سکتے ہیں، کیونکہ تحریک انصاف نے 27 مارچ کو ڈی چوک میں بڑے جلسے کا اعلان کر رکھا ہے جس کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتیں بھی جلسے کا ارادہ رکھتی ہیں، اپوزیشن جماعتیں حکومت سے پہلے جلسہ کرتی ہیں تو حکومت کے پاس رکاوٹ ڈالنے کا اخلاقی جواز نہیں ہے اس لئے کہ وہ خود جلسہ کرنے جا رہی ہے، یوں دیکھا جائے تو تصادم کے امکانات موجود ہیں، اس ضمن میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 23 مارچ کو قافلے پورے پاکستان سے روانہ ہوں گے، مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ٹکراؤ ہوتا ہے توہونے دیں، ہم تیار ہیں، ٹکراؤ ہوگا تو ذمہ دارحکومت ہو گی، اگرآمنا سامنا ہوا تو پھر ہمیں ڈٹ جانا بھی آتا ہے۔
تحریک انصاف حکومت کی وفاق میں مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں کہ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کی خبریں آنے لگی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کی منظوری کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کیخلاف تحریک عدم اعتماد تیار کر کے اس پر ممبران کے دستخط کروا لئے گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کیلئے ریکوزیشن بھی تیار کر لی گئی ہے۔ قوی امکان ہے کہ اگلے ایک دو روز میں وزیر اعلیٰ پنجاب کیخلاف تحریک عدم اعتماد پنجاب اسمبلی میں جمع کروا دی جائے گی۔ تحریک عدم اعتماد کو سپورٹ کرنے والے ممکنہ حکومتی پارٹی کے ارکان کو اگلے الیکشن کے لئے پارٹی ٹکٹ جبکہ ان سے الیکشن2018ء میں ہارے ہوئے ن لیگ کے رہنماؤں کو پہلے سے بہترین پوزیشن دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ایسی صورتحال میں تحریک انصاف حکومت کی مشکلات ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہیں، وزیر اعظم عمران خان اس گمبھیر صورتحال کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں یہ بہت اہم ہو گا، کیونکہ اب اعصاب شکن کھیل کا آغاز ہو چکا ہے اور اعصاب شکن کھیل میں جیت اسی کی ہوتی ہے جو ایسے معاملات میں اعصاب پر قابو پانا جانتا ہو۔