سیاست میں تحریک بدکلامی کے سرخیل
ملک میں اس وقت کئی تحریکیں چل رہی ہیں اپوزیشن تحریک عدم اعتمادکی کامیابی کے لیے سرگرم ہے، حکومت کے اتحادی مستقبل کے حوالے سے معاملات طے کرنے کی تحریک پر ہیں، پی ڈی ایم نے لانگ کا اعلان کیاہے، حکومت مختلف شہروں میں جلسے منعقد کر رہی ہے پاکستان تحریک انصاف نے 27مارچ کو اسلام آباد میں دس لاکھ افراد جمع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے لیکن ان سب تحریکوں میں ایک تحریک ایسی بھی ہے کہ جس کو سب سے زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ جی ہاں وزیراعظم عمران خان کی تحریک بدکلامی، بدزبانی اور بداعمالی اپنے عروج پر ہے انہوں نے آج سے چند سال قبل بدکلامی کا جو سفر شروع کیا تھا وہ سفر نہایت اہم موڑ میں داخل ہو چکا ہے۔
تحریک انصاف اب تحریک بدکلامی اور بدزبانی میں بدل چکی ہے ان کی بد اعمالیاں رنگ لا رہی ہیں، بیرون ملک بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں پورے ملک میں اس وقت ہیجان کی فضاء ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان ہاتھ سے نکلتا اقتدار دیکھ کر خطرناک ہو چکے ہیں ان کے اس دور کو خطرناک فسطائیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیوں کہ عمران خان اور ان کے ہمنواء سیاسی مخالفین اور تنقید کرنے والوں کے خلاف بدزبانی کرنا، ان کی پگڑیاں اچھالنا، نام بگاڑنا، گالم گلوچ کرنا اپناحق سمجھتے ہیں۔
عمران خان نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے خانہ بدوش ترجمان اکٹھے کیے ہیں جو اس فن میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ یہ کریڈٹ بھی عمران خان اور ان کی جماعت کو جاتاہے کہ جو گالی کلچر کو اپنا فخر اور پاکستانی سیاست کا حسن سمجھتے ہیں انہوں نے بڑی محنت سے ایسی ٹیم تیارکی ہے جو مخالفین کو زیر کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے اسی لیے ان کے نزدیک جو سب سے زیادہ بدزبان پارٹی ورکر ہے وہ سب سے زیادہ پارٹی قیادت کے قریب ہے۔
پارٹی کی قیادت ایسے شخص کو بڑا عہدہ بھی دیتی ہے کیونکہ پارٹی قیادت خود بھی اپنے سیاسی مخالفین کے لیے گندی زبان استعمال کرتی ہے اس کو دیکھ کر ورکر بھی پیچھے نہیں رہتا وہ تو پارٹی قیادت سے بڑھ کر اپنے مخالفین کے لیے گندی زیان استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اس ورکر کو پارٹی قیادت کے مزید قریب ہونے کا موقع ملتا ہے۔
مالیاتی کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ دراصل ایک فریب ثابت ہوا ہے، موجودہ دورِ حکومت میں کرپشن ہی نہیں کرپشن کے طریقہ کار بھی بدل گئے ہیں نچلی سطح پر مہنگائی نے کرپشن کو بڑھاوا دیا ہے، اعلی سطح پر میگا کرپشن نے ملک کو عالمی درجہ بندی میں 140 ویں نمبر پر گرا دیا ہے، مالیاتی کرپشن رہی اپنی جگہ پی ٹی آئی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہو گیا ہے اس نے پورے ملک میں بدکلامی، بدتہذیبی، ناشائستگی اور بداخلاقی کے ایک نئے کلچر کو متعارف کروا دیا ہے اور پوری ایک نسل کو گمراہ کیاہے۔
آج کل ہر کوئی یہ گلہ کرتا پایا جاتا ہے کہ معاشرتی اقدار تبدیل ہو رہی ہیں،یعنی تنزلی کی جانب مائل ہیں۔ بدزبانی ایک وبا کی صورت میں پھیل رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پیروکار بدزبانی کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ جس طرح سے بدزبان سیاسی شخصیات کو ان کے چاہنے والوں میں پذیرائی ملتی ہے اسی طرح سے بدزبان اینکروں کو بھی ریٹنگ کی صورت میں اپنی دکانیں مزید چمکانے کا موقع ملتا ہے۔
مانا کہ میڈیا کی ترقی خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کی آمد اور وسعت کے بعد طوفان بدتمیزی سکہ رائج الوقت ہو چکا، مگر موجودہ حکومتی سرپرستی میں سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک بدکلامی اور ان کے ہمنواء کب تک یہ غیر اخلاقی، غیر سیاسی اور غیر انسانی حربے استعمال کرتے رہیں گے۔ کب تک جھوٹ، بہتان، فریب سے دھوکہ دیتے رہیں گے، کب تک دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے رہیں گے، کب تک دوسروں پر جوتے برساتے رہیں گے جو آہستہ آہستہ واپس ان کے منہ پر لگ رہے ہیں۔ کب تک لوگوں کو سیاست، صحافت اور معیشت میں انتقام کا نشانہ بناتے رہیں گے جو ایک خطرناک کھیل ہے۔
آج اگر اپوزیشن عمران خان کی حکومت گرانے کے درپے ہے تو اس کا جواب یہ تھا کہ پی ٹی آئی حکومت اپنی کارکردگی سے انہیں ناکام کرتی۔ عمران خان نے یہ سوچا کہ ہر دفعہ کی طرح وہ اس مرتبہ بھی بیساکھیوں کے سہارے اپنی حکومت بچالیں گے یا اپنے سرپرستوں کے ذریعے اپوزیشن کو دبا لیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو انہوں نے تحریک بدکلامی شروع کردی۔
حکومت کی بدکلامی کے جواب میں اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے بیانات میں شدت لا رہی ہیں اگر دوسری طرف سے بھی یہ سلسلہ مزید دراز ہوا تو پھر ملک میں کسی کابھی جینا مشکل ہو جائے گا۔ یہ لڑائی گلی محلوں تک پھیل جائے گی جس کو روکنا مشکل اور ناممکن ہو جائے گا۔
لہذا عمران خان کو بدکلامی، بدزبانی، گالی گلوچ اور کردار کشی کا سلسلہ بند کرنا ہو گا جس سے ملک میں خانہ جنگی کا سماں پیدا ہو رہا ہے جو کسی بین الاقوامی ایجنڈا کا حصہ معلوم ہوتا ہے تاکہ پاکستانی ایٹمی طاقت کی حامل قوم کو تقسیم در تقسیم کیا جائے۔ اپوزیشن کا یہ بیانیہ درست ثابت ہو رہا ہے کہ عمران خان کی بدکلامی، بدزبانی، بداعمالی اور بدانتظامی سے پاکستان تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے جس میں ان کی تاریخی ناکامیوں، نااہلیوں کا بہت بڑا عنصر شامل ہے جس کو چھپانے کے لئے مخالفین پر وہ رکیک حملے کر رہے ہیں اور اس گیم میں وہ اپنے سرپرستوں کو بھی نہیں بخش رہے ہیں۔
ان کی بدزبانی کے جملے سوشل میڈیا کے ذریعے زبان زدعام ہو رہے ہیں جس سے ملک بدحال اور بے حال ہو چکا ہے جس کے اردگرد حالات بدل کر خوفناک شکل اختیار کر چکے ہیں۔ عوام کو توپہلے دن سے یہ احساس ہو چکا تھا کہ جن رنگین اور پرکشش وعدوں اور خوابوں کے رتھ پر سوار ہو کر موجودہ حکومت نے اقتدار کی منزل حاصل کی ہے وہ تمام وعدے اور خواب عملی تعبیر سے محروم رہ گئے ہیں بلکہ ملک و قوم کئی سنگین مسائل سے دو چار ہیں۔
سیاست میں پاکستان تحریک انصاف کے آنے کے بعد سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ ہمارے سیاست دان اب بلاخوف و خطر اپنے بیانات میں انتہائی نامناسب زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔ ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنا، طنز کرنا ایک معمول کا مشغلہ بن گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لیڈران دن بھر مشق کرتے رہتے ہیں کہ آج شام ٹی وی پروگرام یا جلسے میں کون کون سے مؤثر الفاظ استعمال کریں گے۔
خدا جانے یہ نئی نسل کو کیا سکھا رہے ہیں، پاکستان مسائل سے گھرا ہوا ملک ہے اور اس کے رہنما ان تمام مسائل کو حل کرنے کے دعوے دار ہیں لیکن وہ مسائل حل کرنے سے پہلے اپنی تیز زبانوں سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ جوں جوں تحریک عدم اعتماد کا وقت قریب آرہا ہے، کردار کشی کی یہ کوششیں بھی تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ سیاست دان یہ سارے تجربے ماضی میں بھی کرچکے ہیں۔ ماضی میں بھی کردار کشی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کرنے یا الزام لگانے کا طریقہ اپنایا جاتا رہا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں قومی سیاست میں کوئی بہتری پیدا ہونے کی بجائے سیاسی لیڈروں پر بھروسہ اور اعتبار متاثر ہوا اور جمہوری عمل خطرات کا شکار ہوا۔
اس کے باوجود ملک کے سیاست دان ماضی سے سبق سیکھنے اور اختلاف رائے کے لئے مہذب طریقہ اختیار کرنے کی بجائے اب بھی گام گلوچ اور الزام تراشی کو ہی لوگوں کو متاثر کرنے کا آسان ترین طریقہ سمجھتے ہیں۔ ہر سیاستدان کی طرح عمران خان بھی یہ چاہتے ہیں کہ اس کا اقتدار ہمیشہ قائم رہے اور اس کے لیے وہ کوئی بھی قیمت دے سکتا ہے، کسی حد تک بھی گر سکتا ہے اور کوئی بھی تذلیل برداشت کر سکتا ہے۔
عمران خان کے تند و تیز بیانات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو مدعا، نظریہ، ہدف یا نعرہ لے کر وہ اقتدار میں آیا تھا وہ قطعی بے معنی ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد واحد ہدف اور مقصد صرف اقتدار رہ جاتا ہے۔ اور اس سے ہرقیمت وہ چمٹا رہنا چاہتا ہے چاہے اس کے لیے کتنا ہی گند ڈالا جائے؟