عمران خان ڈی چوک میں کیا انکشاف کرنے والے ہیں؟
سیاستدانوں کے لئے دو باتیں بہت اہم ہوتی ہیں، ایک آئندہ انتخابات اور دوسرا سیاسی ساکھ۔ اہل سیاست انہی دو باتوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں کس پارٹی میں شمولیت اختیار کرنی ہے۔ الیکٹ ایبلزکی سیاست انہی دو باتوں کے گرد گھومتی ہے، مسلم لیگ ن کی حکومت سے پہلے تحریک انصاف کی مقبولیت سر چڑھ کر بول رہی تھی اس وقت ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے جس سے واضح تھا کہ آئندہ حکومت تحریک انصاف کی ہو گی چونکہ تحریک انصاف کے پاس اپنے نمائندوں کی کمی تھی تو الیکٹ ایبلز نے اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈال دیا، یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ الیکٹ ایبل کسی بھی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ ایسے وقت میں کرتے ہیں جب ان کی کامیابی یقینی ہوتی ہے۔
آج تحریک انصاف کی حکومت پر مشکل وقت آیا ہے تو الیکٹ ایبلز نے اسے تنہا چھوڑ دیا ہے، تحریک انصاف کے قائدین نے اسے غداری کا نام دیا ہے حالانکہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے جب الیکٹ ایبلز تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر رہے تھے تو اس وقت ان کے فیصلے کو ضمیر کی آواز قرار دیا گیا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو آئندہ انتخابات میں ٹکٹ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، یاد رہے مسلم لیگ ن کو 2018ء کے الیکشن سے پہلے جنوبی پنجاب سے دھچکا لگا تھا کیونکہ مسلم لیگ ن کے 35کے قریب اراکین پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے اب وہ اراکین دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہو رہے ہیں۔
اسی طرح مولانا فضل الرحمان نے نومبر 2019ء میں اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اور پھر وزیر اعظم سے استعفیٰ لئے بغیر ہی ختم کر دیا تھا دھرنے کے اچانک ختم کئے جانے پر طرح طرح کی باتیں کی گئی تھیں مگر مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ انہیں ذمہ دار حلقوں کی جانب سے ضمانت دی گئی ہے کہ بہت جلد وزیر اعظم اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے اس خفیہ معاہدے میں چوہدری برادراں کا نام آیا تھا، اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس معاہدے کو ایفا کیا جا رہا ہے۔
چوہدری شجاعت کے بیان سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کئے وعدے کو بھولے نہیں ہیں،چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان ریاست مدینہ کی ہمیشہ بات کرتے ہیں، اچھا ہوتا اگر وہ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 11 ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیتے۔ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ نے کہا کہ سورہ الحجرات کی آیت پڑھ لیتے تو سیاسی لیڈروں کو برے ناموں اور القاب سے نہیں پکارتے۔ چوہدری شجاعت نے سورۃ الحجرات کی آیت 11 کا مفہوم بھی بتا دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ چوہدری شجاعت نے مفہوم بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے جو توبہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو مشورہ ہے کہ شائستگی اور رواداری کا دامن نہ چھوڑیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے عمل کو خفیہ رکھا، حکومت کو اس کا نقصان کو ہوا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کا نوٹس ملنے کے بعد اب اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار کھو چکے ہیں حالانکہ وہ اس سے پہلے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ یہ شق اٹھارویں ترمیم کے بعد شامل کی گئی جب پاکستان پیپلزپارٹی کے آخری دور میں قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا صدر کا اختیار ختم کر دیا گیا تھا، یوں دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتوں نے بڑی مہارت سے حکومت کو بند گلی میں داخل کر دیا ہے۔
حکومتی مشکلات کے باجود وزیراعظم عمران خان کا اطمینان بتاتا ہے کہ ان پاس کچھ ہے جو وہ موقع آنے پر پیش کر سکتے ہیں، سیاسی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے ایک دن پہلے ڈی چوک میں کئے جانے والے جلسے میں وہ کچھ ریکارڈنگ چلائیں گے، یہ ریکارڈنگ وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کا تسلسل ہوں گی جو وہ پہلے بھی دے چکے ہیں کہ حکومت کے خاتمے کے پیچھے بیرونی قوتیں ملوث ہیں۔
اگر وہ وزیر اعظم واقعی ایسا کرنے جا رہے ہیں تو اس صورت میں بھی ان کا اقتدار میں رہنا نظر نہیں آ رہا ہے تاہم اس اقدام سے وہ کسی حد تک اپوزیشن کیلئے مشکلات پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور عوام کی عدالت میں سرخرو ہوں گے۔ عوام یہ سمجھیں گے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمران خان کی حکومت کو بیرونی خواہش پر ختم کر دیا گیا۔28 یا 29 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا اعلان سامنے آیا ہے یوں دیکھا جائے تو ابھی کافی دن باقی ہیں، حکومت اور اپوزیشن اپنے پوزیشن مضبوط بنانے کی سرتوڑ کوشش کریں گی اور وقت کے ساتھ ساتھ کئی امور سے پرتیں اٹھیں گی ان پرتوں کے اٹھنے کے بعد ہی حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کون کامیاب ہو گا اور کسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔