کیا حکومت کے ہاتھ سے ریت سرک چکی!
جب دلیل نہ ہو تو انسان کے لہجے میں تلخی آ جاتی ہے لڑائی کی نوبت بھی اسی سبب پیش آتی ہے، اس کے برعکس جس شخص کے پاس دلیل ہوتی ہے تو وہ مدمقابل کی تلخی کو خندہ پیشانی سے لیتا ہے، جھگڑے کی بجائے تحمل سے جواب دیتا ہے کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس کا حریف اسے مشتعل کر کے غلبہ حاصل کر لے گا۔ پاکستان کے معروضی حالات میں تحریک انصاف کے قائدین کا لہجہ بھی اس امر کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ان کے پاس دلیل کا فقدان ہے۔ یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ دلیل کے ساتھ وہی شخص بات کر سکتا ہے جس کے اعصاب مضبوط ہوں، اعصاب کی مضبوطی کا اندازہ مشکل حالات میں ہوتا ہے اس حوالے سے دیکھا جائے تو حکومت میں شامل اراکین پارلیمنٹ کے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں اگر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے جا رہی ہیں تو یہ ان کا آئینی حق ہے ، اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خاتمے کیلئے آئینی راستہ اختیار کیا ہے، کیونکہ آئین کا آرٹیکل 95 اور قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس 2007ء کے رول 37 تحریک عدم اعتماد کی اجازت دیتا ہے، یوں اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خاتمے کیلئے آئینی راستہ اختیار کر رہی ہیں اگر حکومت کے پاس عددی اکثریت ہے تو پھر اسے اپوزیشن سے گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے مگر حکومت کی گھبراہٹ واضح ہے حتیٰ کہ خود وزیر اعظم عمران مخالفین کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس ووٹ پورے نہیں ہیں یا انہیں خطرہ ہے کہ ان کے کچھ اراکین اپوزیشن کے ساتھ جا ملے ہیں۔
جس طرح اپوزیشن نے حکومت کو ہٹانے کیلئے آئینی راستہ اختیار کیا ہے اسی طرح حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنانے کیلئے آئینی راستہ اختیار کرے۔ حکومت تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کو زیادہ سے زیادہ 29 مارچ تک ٹال سکتی ہے، یوں حکومت تاخیر کر کے اپنے ووٹ پورے کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر حکومت کی اتحادی جماعتیں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ تعاون کا اعلان کر دیتی ہیں تو شاید رائے شماری کی نوبت ہی نہ آئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کا کوئی رکن پارٹی سربراہ فیصلے کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو اسے نااہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاہم سپیکر اسے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے سے روک نہیں سکتا ہے۔ حکمران جماعت کے پاس بظاہر محدود آپشنز ہیں، تحریک انصاف کے جو اراکین اپوزیشن کا ساتھ دیں گے وہ نتائج سے بے نیاز ہو کر کریں گے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے خلاف فوری طور پر کارروائی عمل نہیں لائی جا سکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد میں جماعت کے فیصلے کے خلاف ووٹ دینے کی صورت میں سب سے پہلے پارٹی سربراہ متعلقہ رکن کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرے گا پھر سپیکر کو خط لکھنا ہو گا، سپیکر بھی خود فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ وہ چیف الیکشن کمیشن کو لکھے گا اور الیکشن کمیشن تیس دن کے اندر فیصلہ دیں گے یوں دیکھا جائے تو جو اراکین پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ دیں گے وہ اپوزیشن جماعتوں میں اپنی جگہ پکی کر چکے ہوں گے۔
اگر عمران خان آئینی راستہ اپنانے کی بجائے اتحادیوں کو ساتھ ملانے کیلئے ان کی ڈیمانڈز تسلیم کر لیتے ہیں یعنی ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دے دیتے ہیں اور ایم کیو ایم کو سندھ کی گورنر شپ دیتے ہیں تو ایسا کرنے سے اگرچہ ان کا اقتدار بچ سکتا ہے مگر وہ سیاسی ساکھ کھو دیں گے کیونکہ وہ ماضی میں تواتر کے ساتھ کہتے رہے ہیں کہ اتحادیوں کی ڈیمانڈز کو تسلیم کرنے کیلئے وہ کبھی بلیک میل نہیں ہوں گے۔ حالات ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ اتحادیوں نے حکومت پر بھروسہ کرنے سے انکار کر دیا ہے، ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کہتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمان ضمانت دیں تو آصف زرداری کے وعدے پر اعتبار کر کے اپوزیشن کے ساتھ جا سکتے ہیں۔
مونس الہی اور شیخ رشید کے درمیان بھی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ شیخ رشید نے جب کہا کہ ق لیگ پانچ سیٹوں کے لئے حکومت سے وزارت اعلیٰ مانگ رہی ہے تو اس کے جواب میں مونس الہی نے کہا کہ شیخ رشید زمانہ طالب علمی میں ہمارے بڑوں سے پیسے لیتے رہے ہیں، یہ صورتحال بتاتی ہے کہ حکومت اور اتحادیوں کے درمیان سب کچھ اچھا نہیں ہے۔
تحریک انصاف کے قائدین نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سخت ردعمل دیا مگر اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو، اس کا اظہار وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے یوں کیا ہے کہ ’’دیکھیں ایک سال باقی رہ گیا ہے صلح صفائی کر لیں اور حکومت کو کام کرنے دیں‘‘ انہوں نے دھمکی بھی دی کہ اگر اپوزیشن اپنی بات پر قائم رہی تو پھر انہیں دس سال تک انتظار کرنا ہو گا۔
دس سال انتظار سے وہ کیا اشارہ دینا چاہ رہے تھے یہ شیخ رشید ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ کڑے وقت میں حکمران جماعت کو دو محاذوں پر مشکل کا سامنا ہے ایک اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے سخت مزاحمت ہے جبکہ دوسرے اندرونی سطح پر اراکین اپنی وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں ایسے مشکل مواقع پر ضروری ہوتا ہے کہ نتائج سے بے نیاز ہو کر کچھ لوگ پارٹی کے ساتھ کھڑے رہیں لیکن یہاں صورتحال یکسر مختلف دکھائی دے رہی ہے۔
عمران خان کیلئے یہ لمحہ واقعی تکلیف دہ ہو گا کہ انہوں نے بائیس سالہ جدوجہد میں جو پارٹی قائم کی وہ انہیں مشکل میں تنہا چھوڑ گئی، اس سے بھی پریشان کن امر یہ ہے کہ ایسے مواقع پر پارٹی کو صلح جو افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو آگے پر مفاہمت اپناتے ہیں جس کا فائدہ پارٹی کو ہوتا ہے، اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف میں کوئی ایک شخص بھی مفاہمت کیلئے کوشش کرتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔