خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز
خوشگوار ازدواجی زندگی ہر شادی شدہ جوڑے کا خواب ہوتا ہے، تاہم بہت کم ایسے جوڑے ہیں جو حقیقی معنوں میں خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں، اکثر لوگ اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے ہیں، بسااوقات تو زوجین میں تلخی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ نوبت علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے۔ ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے رہنما اصولوں کو مدنظر رکھیں، میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے جس قدر آسانی پیدا کرنے والے ہوں گے اسی قدر ازدواجی زندگی میں بہار آئے گی۔
ایک دوسرے نیچا دکھانے کی بجائے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اصل رشتہ دوستی اور محبت کا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون اور راحت کا ذریعہ ہیں، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب کبھی کوئی اجتماعی کام کیا جائے تو لوگوں کو چاہیے کہ وہ کسی کو اپنا امیر بنا لیں، تاکہ کام نظم و ضبط کے ساتھ انجام پائے، یہاں تک کہ اگر دو شخص کسی سفر پر جا رہے ہوں تب بھی مستحسن یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو امیر بنا لیں، خواہ وہ دونوں آپس میں دوست ہی کیوں نہ ہوں، اب جس شخص کو بھی امیر بنایا جائے، وہ ہر وقت دوسرے پر حکم چلانے کے لیے نہیں، بلکہ سفر کے معاملات کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے امیر بنایا گیا ہے، اس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھی یا ساتھیوں کی خبرگیری کرے، سفر کا ایسا انتظام کرے جو سب کی راحت و آرام کے لیے ضروری ہو، اور جب وہ یہ فرائض انجام دے تو دوسروں کا یہ کام ہے کہ وہ ان امور میں اس کی اطاعت اور اس کے ساتھ تعاون کریں۔
جب اسلام نے ایک معمولی سے سفر کے لیے بھی یہ تعلیم دی ہے تو زندگی کا طویل سفر اس تعلیم سے کیسے رہ سکتا تھا؟ لہٰذا جب میاں بیوی اپنی زندگی کا مشترک سفر شروع کر رہے ہوں تو ان میں سے شوہر کو اس سفر کا امیر یا نگران بنایا گیا ہے، کیونکہ اس سفر کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے جو جسمانی قوت اور جو صفات درکار ہیں وہ قدرتی طور پر مرد میں زیادہ ودیعت کی گئی ہیں، لیکن اس انتظام سے یہ حقیقت مانند نہیں پڑتی کہ دونوں کے درمیان اصل تعلق دوستی، محبت اور رحمت کا تعلق ہے، اور ان میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے ساتھ ایک نوکر کا معاملہ کرے، یا شوہر اپنے امارت کے منصب کی بنیاد پر یہ سمجھے کہ بیوی اس کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے پیدا ہوئی ہے، یا اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیوی سے اپنی ہر جائز و ناجائز خواہش کی تکمیل کرائے ،بلکہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو جو قوت اور جو صفات عطا کی ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے اس منصب کو جائز حدود میں رہتے ہوئے بیوی کی دلداری میں استعمال کرے اور اس کی جائز خواہشات کو حتی الامکان پورا کرے ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بیوی کو جو مقام بخشا ہے ، اور اسے جو حقوق عطا کیے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتیں اپنے شریک زندگی کے ساتھ تعاون اور اسے خوش رکھنے میں صرف کرے، اگر دونوں یہ کام کر لیں تو نہ صرف یہ کہ گھر دونوں کے لیے دنیوی جنت بن جاتا ہے بلکہ ان کا یہ طرز عمل مستقل عبادت کے حکم میں ہے جو آخرت کی حقیقی جنت کا وسیلہ بھی ہے ، اسی لیے دونوں کو نکاح کے خطبے میں تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے ، اور اسی لیے اہل علم نے فرمایا کہ احسان کا موقع صرف نماز ہی نہیں بلکہ میاں بیوی کے تعلقات بھی ہیں۔
قرآن کریم کی بے شمار آیات میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے خطبہ کے لیے جو بات مشترکہ طور پر کہی گئی ہے ، وہ تقویٰ کا حکم ہے، کوئی نادان یہ کہہ سکتا ہے کہ تقویٰ کا شادی بیاہ سے کیا جوڑ؟ لیکن جو شخص حالات کے نشیب و فراز اور میاں بیوی کے تعلقات کی نزاکتوں کو جانتا ہے، اور جسے ازدواجی الجھنوں کی تہہ تک پہنچنے کا تجربہ ہے، وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات اور ایک دوسرے کے حقوق کی ٹھیک ٹھاک سے ادائیگی کے لیے تقویٰ ایک لازمی شرط ہے.
میاں بیوی کا رشتہ نازک ہوتا ہے، ان دونوں کے سینے میں چھپے ہوئے جذبات اور ان کی حقیقی سرشت ایک دوسرے کے سامنے اتنی کھل کر آتی ہے کہ کسی اور کے سامنے اتنی کھل کر نہیں آ سکتی، دوسروں کے سامنے ایک شخص اپنی بدطینتی کو ظاہری مسکراہٹوں کے پردے میں چھپا سکتا ہے، اپنے اندر کے انسان پر خوبصورت الفاظ اور اوپری خوش اخلاقی کا ملمع چڑھا سکتا ہے، لیکن بیوی کے ساتھ اپنے شب و روز کے معاملات میں وہ یہ ملمع باقی نہیں رکھ سکتا ، اسے اپنی ظاہرداری کے خول سے کبھی نہ کبھی باہر نکلنا ہی پڑتا ہے، اور اگر اندر کا یہ انسان تقویٰ سے آراستہ نہ ہو تو اپنے شریک زندگی کا جینا دو بھر کر دیتا ہے۔
ایک بیوی کو اپنے شوہر سے جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ، ان کا ازالہ ہمیشہ عدالت کے ذریعے نہیں ہو سکتا، ان میں سے بے شمار تکلیفیں ایسی ہیں جو وہ عدالت تو کُجا اپنے کسی قریبی رشتہ دار کے سامنے بھی بیان نہیں کر سکتی، اسی طرح ایک شوہر کو بیوی سے جو شکایتیں ہو سکتی ہیں بسا اوقات شوہر کے پاس ان کا کوئی حل نہیں ہوتا، نہ کسی اور کے ذریعے وہ انہیں دور کرنے کا کوئی سامان کر سکتا ہے، اس قسم کی تکلیفوں اور شکایتوں کا علاج دنیا کی کوئی طاقت فراہم نہیں کر سکتی، ان کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ دونوں کے دل میں تقویٰ ہو، یعنی وہ اس احساس کی دولت سے مالا مال ہوں کہ وہ ایک دوسرے کے لیے امانت ہیں، اور اس امانت کی جواب دہی کل اُنہیں اللہ کے پاس کرنی ہے، اپنے شریک زندگی کو اپنے کسی طرزِ عمل سے ستا کر وہ شاید دنیا کی جواب دہی سے بچ جائیں ، لیکن ایک دن آئے گا جب وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے اور انہیں اپنی ایک ایک حق تلفی کا بھگتان بھگتنا پڑے گا.
اسی احساس کا نام تقویٰ ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل پر انتہائیوں میں بھی پہرہ بٹھاتی ہے، جہاں اسے کوئی اور دیکھنے والا نہیں ہوتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے ہیں کہ جب وہ مرد و عورت کی زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے ساتھی بنیں تو وہ روانہ ہونے سے پہلے اپنے دل پر غیبی پہرہ بٹھا لیں ، تاکہ ان کی دوستی پائیدار ہو ، اور ان کے دل میں ایک دوسرے کی محبت محض وقت نفسانیت کی پیداوار نہ ہو ، جو نئی نویلی زندگی کا جوش ٹھنڈا ہونے کے بعد فنا ہو جائے گا ، بلکہ وہ تقویٰ کے سائے میں پلی ہوئی پائیدار محبت ہو جو خود غرضی سے پاک اور ایثار، وفا اور خیر خواہی کے سدا بہار جذبات سے مزین ہوتی ہے، اور جسم سے گذر کر واقعی قلب و روح کی گہرائیوں تک سرایت کر جاتی ہے۔