خانہ کعبہ میں دو رکعت پڑھنے کی خواہش

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہجرت کا حکم ہوگیا تو آپؐ نے چاہا کہ میں بیت اللہ میں دو رکعت نماز پڑھوں۔ یہ تو ظاہر تھا نہیں کہ آپؐ ہجرت فرما رہے ہیں مگر اجازت آ چکی تھی۔

اس زمانہ میں عثمان شیبی کے ہاتھ میں کعبہ کی کنجیاں رہتی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ شیبی! ایک دو منٹ کے لیے بیت اللہ کھول دو، میں دو رکعت پڑھ لوں۔ اس نے آپؐ کو ڈانٹ دیا اس لیے کہ حکومت تو اسی کی تھی، آپ کی تو تھی نہیں۔ آپؐ نے کچھ نرمی سے فرمایا کہ دو ہی رکعتیں پڑھنی ہیں، اس نے کہا کہ نہیں نہیں۔

بہرحال اس نے اجازت نہیں دی۔ آپؐ نے فرمایا کہ شیبی ! ایک وقت آنے والا ہے میں تو اس جگہ کھڑا ہوا ہوں گا جہاں تو کھڑا ہے اور تو اس جگہ کھڑا ہو گا جہاں میں کھڑا ہوا ہوں۔ اس وقت تیرا کیا حشر ہوگا۔ اس نے کہا کہ یہ سب تخیلات ہیں۔ شیخ چلی کی باتیں ہیں، غرض کہ اجازت نہ دی۔ بلا نماز پڑھے آپ ؐ واپس تشریف لائے، رات کو ہجرت فرمائی۔ یہ تیرہ برس کی زندگی آپ نے انتہائی پریشانیوں میں گزاری۔ پھر ہجرت کے آٹھ سال بعد مکہ میں آپؐ فاتحانہ داخل ہوئے اور آپ نے مسجد حرام سے ابتدا کی اور وہاں آ کر آپؐ نے نماز پڑھی۔

کعبہ کی کنجیاں آپ کے ہاتھ میں دی گئیں۔ آپؐ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ بلاؤ شیبی کو، شیبی حاضر ہوا۔فرمایا کہ وہ وقت یادہے کہ میں نے منت سماجت کی کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے دو۔ مگرتم نے اجازت نہیں دی تھی۔ اس نے کہا ہاں یاد ہے اور فرمایا کہ میں نے کہا تھا کہ ایک وقت آنے والا ہے، میں وہاں کھڑاہوں گا جہاں تو کھڑاہے اور تم یہاں کھڑے ہو گے جہاں میں کھڑا ہوں۔
آپؐ نے فرمایاکہ وہ وقت آگیا ہے کہ میں کھڑا ہوں تیری جگہ اور تم کھڑے ہو میری جگہ۔ اس نے کہا ہاں وہ وقت یاد آگیا ہے۔فرمایا کہ اب تیرا کیا حشر ہونا چاہیے۔ اس نے ایک ہی لفظ کہا کہ ’’اخ کریم و نبی کریم‘‘ میں کریم پیغمبراور کریم بھائی کے سامنے ہوں۔

اس برائی کا بدلہ آپ نے یہ دیا کہ کعبہ کی کنجیاں اس کوسپرد کیں اور فرمایا کہ نسلاً بعد نسل قیامت تک تیرے ہی خاندان کو دیتا ہوں یہ کنجیاں۔ تو آج تک وہ شیبی کا خاندان ہے جو برابر کلیدبردار کعبہ ہے اور آدھے مکہ پر اس کی حکومت ہے۔ لاکھوں کروڑوں کا سامان اس کی دکانوں پر پڑاہواہے اور جسے چاہے اجازت دے اور جسے چاہے بیت اللہ کے داخلے کی اجازت نہ دے۔ تو اس نے دو رکعت نہیں پڑھنے دی جواب میں آپ نے کنجیاں سپرد کر دیں اور فرمایا کہ لے یہ تیرے خاندان کو قیامت تک کے لیے دیتا ہوں۔ یہ خلق عظیم نہیں تھا تو اور کیا تھا کہ اُدھر سے زیادتی اور اِدھر سے یہ کچھ لطف و کرم۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button