کیا بدتہذیبی قومی سیاست کا حصہ بن چکی؟
مخالفین کی پگڑیاں اچھالنا،ان کی شخصیت کو متنازعہ بنانا،الزامات لگانا،برے القابات سے پکارنا،سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر غلیظ ٹرینڈ چلانا،کردارکشی کرنا،انہیں تضحیک کانشانہ بنانا، ترجمانوں کو بدزبانی کا ٹاسک دینا اور جو زیادہ بدتمیزی اور بدتہذیبی کا مظاہرہ کرے اسے شاباش دینا یہ پی ٹی آئی کا منشور اور کارکردگی ہے پی ٹی آئی اس میں اتنی خود کفیل ہے کہ معمولی کارکن سے لے کر وزیراعظم تک مقابلہ بازی ہے کہ گالم گلوچ اور بدزبانی میں کون سبقت لے جاتاہے؟
آج اگر سوشل میڈیا بند کر دیا جائے اور ان کے ترجمانوں کو میڈیا سے بلیک آئوٹ کر دیا جائے تو پی ٹی آئی کی حکومت سرے سے ہی غائب ہوجائے گی۔
ماضی کی حکومتیں اور ان کے وزراء ٹی وی چینلز پر اپنی کارکردگی بیان کرتے تھے مگر یہ موجودہ حکومت کاطرہ امتیاز ہے کہ ان کے وزراء اور ترجمان صرف مخالفین کی کردار کشی کے لیے میڈیا پر آتے ہیں اس بدزبانی کے لیے انہوں نے مختلف قسم کے کارندے اپنی ٹیم میں رکھے ہوئے ہیں جو سارا دن محنت کر کے یہ تلاش کرتے ہیں کہ مخالف کو کس طرح کی گالی دینی ہے اسے کس نام سے پکارنا ہے اور اس کا نام کس طرح بگاڑنا ہے؟
بدقسمتی سے اب یہ بدتہذیبی قومی سیاست کاحصہ بن چکی ہے سوال یہ ہے کہ یہ ہے وہ تبدیلی جس کے لیے عمران خان نے پچیس سال محنت کی تھی؟ اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں جوں جوں تیزی آ رہی ہے حکومت اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم کی طرف سے بھی تیزی سے جوابات آ رہے ہیں۔
میلسی میں وزیراعظم کی تقریر پرکچھ لوگ حیران ہیں مگر میرے لیے یہ قطعاً حیران کن نہیں، کیوں کہ عمران خان نے خود اس کلچر کو رواج دیا ہے اور اس تہذیب کے وہ سرخیل ہیں، پی ٹی آئی کو مبارک ہو کہ اس نے سیاسی لڑائی میں اخلاقیات کو مات دے دی ہے اور یہ مات آج نہیں دی ہے پہلے دن سے دی ہے یہ توقع تھی کہ حکومت ملنے کے بعد ان کے انداز و اطوار میں کچھ تبدیلی آئے گی مگر حالت پہلے سے بھی بدتر ہو گئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات مزید بگڑ رہے ہیں ۔
کسی بھی معاشرے میں اخلاقیات ہی وہ بنیاد ہیں کہ جس کے منہدم ہونے کے بعد پھر کسی خیر کی توقع نہیں رہتی،پی ٹی آئی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے سیاست سے اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہے اور آج تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف یہ جنگ جیت چکی ہے بلکہ آگے بڑھ کر وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو باقاعدہ مبارک باد دینا چاہیے۔
اس بدتہذیبی اور بداخلاقی کے کلچرمیں کوئی پی ٹی آئی کو مات نہیں دے سکتا۔ سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو سیاست میں زبان درازی گالی گلوچ اور بدزبانی کا رواج موجودہ حکومت نے ڈالاہے۔ اگرچہ اس سیلاب میں دیگر جماعتیں بھی بہہ گئیں اور انہوں نے بھی سوشل میڈیا ٹیمیں بنائیں مگر دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے جواب دینے یا ردعمل میں یہ اقدام اٹھایاہے۔
سوشل میڈیا کے محاذ پر بیٹھے خصوصاً پی ٹی آئی کے تنخواہ دار کارندے دن رات الزامات اور دشنام طرازیوں سے بھری ایسی ایسی غلیظ پوسٹیں بنانے اور اپ لوڈ کرنے میں مصروف ہیں کہ جن کا تذکرہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر کرنا ناممکن ہے۔ سوشل میڈیا کے محاذ پر اخلاقی اقدار کو روند دیا گیا ہے، سوشل میڈیا پر گند اچھالتی ایک نسل کو اس کام پر لگا دیا گیاہے۔
یہ اعزاز بھی حکومت کو حاصل ہو رہاہے کہ سوشل میڈیا کے بعد اب سیاسی جلسوں میں بھی اس کلچر کو رواج دیا جا رہا ہے، وزیراعظم کی حالیہ تقریر اسی کی غمازی کرتی ہے۔ اپوزیشن اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد پیش کر رہی ہے تو یہ اپوزیشن کا آئینی حق ہے اپوزیشن کے اس اقدام پر بوکھلا جانا اور بائولے پن کا اظہار کرنا حکومت کی ناکامی کی واضح دلیل ہے۔
جب حکومت کی کارکردگی نہیں ہو گی تو ظاہر ہے کہ حکومت مخالفین کو زیرکرنے کے لیے اسی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرے گی، کیا حکومت کے یہ ہتھکنڈے اسے بچا پائیں گے؟ اگر حکومت کی کارکردگی اتنی ہی اچھی ہے تو پھر وزیراعظم کو مطمئن ہونا چاہیے۔ کارکردگی اگر بہتر ہو گی تو اپوزیشن اپنے عزائم میں ناکام ہو گی۔ حکومت کی حالت یہ ہے کہ جب کوئی ان کے کردار پر انگلی اٹھائے تو اس پر جھوٹا مقدمہ قائم کر دیتے ہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں مگر جب یہ دوسروں کی کردار کشی کرتے ہیں تو اس بدزبانی کے جواز کے لیے جھوٹے دلائل بھی تراش لیتے ہیں۔
اس سے بھی خوفناک بات یہ ہے کہ ایک لمحے میں وزیراعظم سیاسی مخالفین کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں تو اسی لمحے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں پاکستان تحریک انصاف میں کوئی اہل خرد ہے جو انہیں سمجھائے کہ ریاست مدینہ کاجو ماڈل وہ پیش کر رہے ہیں یہ دراصل اس مقدس نام اور نعرے کی بھی توہین ہے۔ مگر کیا کیا جائے پی ٹی آئی کا مذہبی ونگ پہلے ہی بہت کمزور تھا اور حکومت کی کشتی میں جو مذہبی جماعتیں سوار ہوئی ہیں ان کی حالت پی ٹی آئی سے بھی پتلی ہے، کیوں کہ ان جماعتوں کی عوام کی مقبولیت نہ ہونے کے برابرہیں۔
بدقسمتی سے یہ نام نہاد مذہبی جماعتیں عمران خان کو ریاست مدینہ کاماڈل بھی اب تک پیش نہیں کر سکی ہیں ورنہ وزیراعظم باربار یہ نام نہ لیتے۔ ہمارے وزیراعظم کی ساڑھے تین سال میں ایک ہی کارکردگی ہے کہ انہوں نے ہرفورم پر مخالفین کو تضحیک کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا، وزیراعظم کی ذہنی سطح کایہ عالم ہے کہ امریکہ میں کھڑے ہو کر بھی سیاسی مخالفین پر طعن و تشنیع سے باز نہیں آئے اور یہی کام ان کے وزراء اور ترجمان کر رہے ہیں۔
اپوزیشن کی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ روایتی طریقے سے وزیراعظم کو ہٹا لیں گے۔ ہماری یہ روایت یہ ہے کہ ہم مخالفین کے جنازوں میں بھی شرکت کرتے ہیں مگر یہ موجودہ حکومت اور وزیراعظم کا وطیرہ ہے کہ مخالفین کو تو چھوڑیں اپنے حامیوں اور دیرینہ ساتھیوں کے جنازوں میں شرکت کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے اپوزیشن کو حکومت کا جنازہ پڑھنے کے لیے غیرروایتی طریقوں کو استعمال کرنا ہو گا۔
وزیراعظم سے گزارش ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے ریاست مدینہ کانعرہ نہ لگائیں یہ اس نعرے کی توہین ہے بلکہ ریاست مدینہ کے نام کو اپنے سیاسی مقاصدکے لیے استعمال کرنا بدترین جرم ہے اس حوالے سے مذہبی جماعتوں کو آگے بڑھنا چاہیے اگرچہ کچھ رہنمائوں نے اس حوالے سے بات کرنا شروع کر دی ہے حکومت نے اب تک جو اقدام کیے ہیں ان میں کہیں بھی ریاست مدینہ کی جھلک نظر نہیں آتی اور اپنی زبان سے جو بیان کر رہے ہیں وہ تو قطعاً ریاست مدینہ کے تقاضوں کا آئینہ دار نہیں ہے۔
ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن سیاست کے لیے مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت بھی اپنی سیاست کے لیے ریاست مدینہ کے مذہبی کارڈ کو استعمال کر رہی ہے جو کہ زیادتی ہے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کو ضرور رہنمائی کرنا چاہیے اگر اسلامی نظریاتی کونسل اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتی تو پھر مفتیان کرام کو آگے بڑھنا چاہیے اور قوم کی رہنمائی کرنا چاہیے کہ جس کلچر کو پی ٹی آئی نے رواج دیا ہے آیا وہ ریاست مدینہ سے میل کھاتا ہے؟
تمام پارٹیوں میں بدتہذیب لوگ موجود ہیں لیکن بظاہر پی ٹی آئی اس کام میں سب سے آگے ہے۔ اس بات کے شواہد موجود ہوں کہ پارٹی رہنما ایسے لوگوں کو نہ صرف شہہ دیتے ہیں بلکہ ان کو تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے انتخابی سیاست کے عمل کو سہولت سے آراستہ کیا وہیں اسے اخلاقی قدروں سے آزاد کر دیا۔
اس پلیٹ فارم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ شناخت کے بوجھ سے آزاد ہو کر جس پر جو چاہے الزام لگائیں۔ جس کی ذات کے چاہے بخیے ادھیڑیں اور جس کو چاہے سوشل میڈیا کے چوراہے پر ننگا کر دیں۔ اور جہاں وزیراعظم مخالفین کے خلاف نازبیا زبان استعمال کر رہے ہوں تو وہاں سوشل میڈیا کا اللہ ہی حافظ ہے۔