مال خرچ کرنے سے سینہ میں کشادگی پیدا ہوتی ہے

خوش نصیبی کے اسباب، تکدر اور رنج کا ازالہ کرنے والے عوامل میں یہ بھی داخل ہے کہ لوگوں پر احسان کیاجائے۔ صدقہ اور نیکی کے دیگر اعمال کیے جائیں۔ ان چیزوں سے بھی کشادہ ظرفی پیدا ہوتی ہے۔

فرمان خداوندی ہے کہ جو ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرو۔ وہ لوگ جو صدقہ کرتے ہیں مرد ہو یا عورت۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بخیل اور کریم کی مثال دو ایسے لوگوں سے دی ہے جو جبہ پہنے ہوں۔ کریم خرچ کرتا اور سخاوت کرتا ہے، جبہ اور لوہے کی زرہ بھی اس کے لیے وسیع ہو جاتی ہے حتیٰ کہ اس کا نشان بھی نہیں رہتا۔

بخیل روکتا اور منع کرتا ہے تو اس کی زرہ سکڑتی رہتی ہے حتیٰ کہ اس کی روح بھی تنگ آ جاتی ہے۔ ان کی مثال جو اپنے مال اللہ کی خوشنودی کے حصول میں اور اپنے آپ کو جمانے کے لیے خرچ کرتے ہیں، اس باغ کی سی ہے جو کسی ٹیلہ پر ہو جس پر بارش پڑی تو دوگنا پھل پیدا ہوا، اگر زور کی بارش نہ پڑے تو ہلکی پھوار تو اسے لگتی ہی ہے۔

مزید اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر نہ رکھو، روح کا باندھنا بھی ہاتھ کے باندھنے کا ایک جزو ہے۔ بخیل لوگ سب سے زیادہ تنگ دل اور بداخلاق ہوتے ہیں کہ اللہ نے جو عنایتیں کی ہیں وہ ان میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ اگر انہیں پتہ چلتا کہ لوگوں کو جو کچھ دیتے ہیں اس سے ان کی خوش نصیبی میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ اس نیک کام میں جلدی کرتے۔

اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو گے تو وہ تمہیں دگنا اجر دے گا اور تمہاری مغفرت کر دے گا۔ اور فرمایا: جو نفس کی تنگی سے بچا لیا گیا تو وہ کامیاب و کامران لوگوں میں ہوگا۔ ہم نے اُنہیں جو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں بقول شاعر اللہ نے جو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرو، مال عاریت ہے، عمر کوچ کر جانے والی ہے مال پانی کی ماند ہے اس کے سر چشمے توڑ دو تو سڑ جائے گا اور اگر وہ جاری رہے تو پانی صاف اور میٹھا جاری رہے گا۔

حاتم کہتے ہیں: اس عالم الغیب کی قسم جو گلی کی سڑی ہڈیوں کو بھی زندہ کردیتا ہے، میرا پیٹ تو بھر گیاتھا لیکن کھانے اور کھلانے پر ابھارتا تھا، اس ڈر سے کسی دن کمینہ نہ کہہ دیا جاؤں۔

یہ سخی روز اپنی بیوی کو حکم دیتا تھا کہ مہمانوں کی ضیافت کا انتظام کرے اور انتظار کیا کرے کہ کوئی بھوکا بھٹکا مسافر آ جائے، ان کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئیں تاکہ ان کا سینہ ٹھنڈا ہو۔ وہ کہتا ہے
جب تم کھانا بنا لو تو ایک کھانے والا بھی ڈھونڈ لیا کرو کیوں کہ میں اکیلا اسے نہیں کھایا کرتا۔
اگلے شعر میںوہ اپنے نظریہ کی وضاحت یوں کرتا ہے:
مجھے دکھاؤ کہ کوئی سخی آدمی اپنے وقت سے پہلے مر گیا ہو یا کوئی بخلیل ہمیشہ رہا ہو تاکہ میرے دل کو سکون ملے۔

حاتم کا یہ قول ایک صاف صاف ریاضیاتی منطق پر مبنی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی صداقت میں شبہ نہیں کیا مال جمع کرنا مالدار کی عمر میں کچھ اضافہ کرتا ہے؟ کیا آدمی کا انفاق اس کی عمر گھٹا دیتا ہے؟ ہر گز نہیں!
خطرہ نہیں
ایک مفکر کا قول ہے:
واحد چیز جس سے ہمیں ڈرنا چاہیے وہ خود ڈر ہے۔

زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جو بظاہر خطرہ والے ہوتے ہیں۔ جن کو دیکھ کر آدمی ڈر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مگر زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی خطرہ کو خطرہ نہ سمجھے، بلکہ سادہ طور پر اس کو صرف ایک مسئلہ سمجھے۔ مسئلہ سمجھنے سے آدمی کا ذہن اس کا حل تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے۔

اس کے برعکس جب مسئلہ کو خطرہ سمجھ لیا جائے تو اس سے ڈر والے نفسیات پیدا ہو جاتی ہے۔ آدمی مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے ۔ وہ جو کچھ کر سکتا ہے، اس کو کرنا بھی اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ جو شخص زندگی کی جدوجہد کے میدان میں داخل ہو اس کو سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ وہ اس میدان میں اکیلا نہیں ہے۔ یہاں اس کی مانند دوسرے لوگ بھی ہیں جو اپنے حوصلوں کے مطابق زندگی کی جدوجہد میں مشغول ہیں۔ اس کے ساتھ فطرت کا نظام ہے جو وسیع تر پیمانہ پر قائم ہے۔ اس نظام میں سردی بھی ہے اور گرمی بھی۔ خشکی اور بھی ہے اور پانی بھی۔ میدان بھی ہے اور پہاڑ بھی، یہاں پھول بھی ہے اور کانٹا بھی۔

ان دو طرفہ اسباب سے لازمی طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے سامنے مختلف قسم کی رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ اس کی گاڑی رُکتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ اس قسم کے واقعات ہر آدمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور وہ بہرحال پیش آئیں خواہ ہم ان کو چاہیں یا نہ چاہیں ۔ مگر ہمارے اطمینان کی بات یہ ہے کہ دنیا کا نظام اسی طرح بنایا گیا ہے کہ یہاں اگر انسان مخالف ہیں تو اسی کے ساتھ ہمارے موافق انسان بھی موجود ہیں۔

جہاں رکاوٹیں کھڑی ہوئی ہیں وہیں گنجائش کے دروازے بھی ہر طرف کھلے ہوئے ہیں۔ جو آدمی مخالفتوں یا رکاوٹوں میں الجھ جائے وہ اس دنیا میں اپنا سفر پورا نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس جو شخص ایسا کرے کہ وہ مخالفت یا رکاوٹ پیش آنے کی صورت میں اپنے ذہن کو تدبیر ڈھونڈنے کی طرف لگا دے وہ لازماً اپنے لیے آگے بڑھنے کا راستہ پا لے گا۔ اس کو کوئی طاقت منزل پر پہنچے سے نہیں روک سکتی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button