وہ درخت جس سے انسان دائمی زندگی پاتا ہے
ایک دانا شخص نے امتحان کے طور پر کسی کو کہا کہ ہندوستان میں ایک ایسا درخت ہے جو کوئی اس میوہ کو کھا لیتا ہے کبھی نہیں مرتا۔اس خبرکو جب بادشاہ نے سنا تو اس درخت کے لیے عاشق اور دیوانہ ہوگیا اور فوراً ایک قاصد اس درخت کی تلاش کے لیے ہندوستان روانہ کیا۔ یہ قاصد سالہا سال ہندوستان کے اطراف و جوانب میں سرگرداں پھرتا رہا اور اُسے کہیں ایسا درخت نہ ملا۔ جس سے بھی دریافت کرتا لوگ اس کو جواب دیتے کہ ایسے درخت کو صرف پاگل، دیوانے تلاش کرتے ہیں، چنانچہ سب لوگ اس کا مذاق اُڑاتے۔
جب یہ شخص غریب الوطنی اور سفر کی مشقتوں سے تھک کر چُور ہو گیا تو نامراد اور مایوس ہو کر واپسی کا عزم کیا۔ واپسی کے وقت راستے میں اسے ایک بزرگ ملے جو اپنے زمانے کے قطب تھے۔جس مقام پر یہ شخص نادم اور مایوس ہو کر واپسی کا عزم کر رہا تھا وہیں ایک بڑے قطب وقت اور صاحب کرم بزرگ رہتے تھے۔
یہ شخص شیخ کے پاس روتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کیا:اے شیخ!میں اپنے مقصد اور مراد میں ناامید ہو گیا ہوں،یہ آپ کی مہربانی کا وقت ہے آپ میرے ساتھ تعاون فرمائیں۔
شیخ نے دریافت کیا کہ تمہاری مراد کیا ہے اور تیرا مقصد کیا ہے؟
اس نے عرض کیا کہ میرے بادشاہ نے مجھے یہ کام سپرد کیا تھا کہ میں ایسے درخت کو معلوم کر لوں،جو ہندوستان کے اطراف میں پایا جاتا ہے جس کا میوہ کھا کر آدمی ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ میں نے سالہا سال ڈھونڈا مگر اس کا نشان و پتہ نہ ملا،سوائے اس کے کہ میرا مذاق اُڑایا گیا اور مجھے پاگل سمجھا گیا۔
شیخ یہ گفتگو سن کر ہنسا اور اس سے کہا کہ اے دوست! یہ درخت صرف علم کی نعمت ہے۔ علم سے انسان دائمی زندگی پاتا ہے اور بے علم آدمی مردہ کی طرح ہوتا ہے۔
لیکن یہ بات خوب ذہن نشین رہے کہ علم سے مراد صرف وہی علم ہے جو بندہ کو اللہ تعالیٰ تک پہنچا دے اور جس علم کے ذریعے معاش اور ملازمتیں ملتی ہیں ،وہ علوم صنعت و حرفت کہلاتے ہیں۔ علم اپنے حقیقی معنوں کے اعتبارسے صرف علم دین ہے۔ جس کے ذریعہ بندہ اپنے مالک کو راضی کرکے دونوں جہان کی باعزت حیات حاصل کرتا ہے اور جس کے بغیر انسان زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ ہوتا ہے۔ اسی مفہوم کے پیشِ نظر علم کوآبِ حیات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ بغیر علم کے خدا کی معرفت ناممکن ہے۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو شخص بھی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتا ہو وہ ایسا علم حاصل کرے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پہچان ہوتی ہے۔