کیا پاکستان روس کی جنگ کا فریق بن گیا؟

ایک ایسے وقت میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر روسی دارالحکومت ماسکو پہنچے جب یوکرین اور روس کے مابین تنازعہ اِس وقت پوی دنیا میں فلیش پوائنٹ بن چکا ہے اور اس تنازعہ کی وجہ سے امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک روس کے آمنے سامنے آ چکے ہیں اور امریکہ نے روس کے خلاف سخت معاشی پابندیاں عائد کر دی ہیں ۔

جس وقت عمران خان نے روسی سرزمین پر قدم رکھا عین اسی وقت روس نے شمالی یوکرین پر حملہ کردیا۔ دورہ شروع کرنے سے قبل عمران خان کے کئی وزراء اور مشراء نے وزیراعظم کے روس جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ دورہ منسوخ کرنے پر زور دیا۔انکا خیال تھا کہ ایسے موقع پر روس جانے سے امریکہ اور مغربی ممالک کی ناراضگی مول لینے کے مترادف ہے اور پاکستان خود ایک فریق بن جائے گا اور اسے بھی روسی بلاک کا حصہ تصور کر لیا جائے گالیکن عمران خان جنکے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ ٹھان لیتے ہیں تو وہ کام کر گذرتے ہیں انہوں نے ان باتوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے روس کے دورے کو ترجیح دی۔

دراصل پاکستان نے آج تک جتنا امریکہ کا ساتھ دیا اور اس کیلئے قربانیاں دیں لیکن امریکہ نے ان سب کو نظرانداز کرتے ہوئے ہمیشہ پاکستان کا دھوکا دیا اور وقت پڑنے پر پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے طوطا چشمی اختیار کی۔نائن الیون کی ہی مثال لے لیں جب امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کی تو پاکستان حیرت انگیز طور پر اپنی ہی تسلیم کی ہوئی طالبان حکومت کے خلاف نہ صرف امریکہ کا اتحادی بن گیا اور اسکو مکمل لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی۔

امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان نے اس جنگ میں نہ صرف80ہزار سے زائد اپنے شہریوں اور فوجیوں کی جانوں کے نذرانے پیش کئے بلکہ ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان بھی کیا لیکن اسکے بدلے میں امریکہ نے پاکستان کو کیا دیاہمیشہ طالبان کے ساتھ مل کر پاکستان پر امریکہ کے ساتھ ڈبل کھیل کھیلنے کا الزام عائد کیا اور اسامہ بن لادن کوپاکستان میں پناہ دینے کا الزام بھی پاکستان کے سر تھونپ دیا اور پاکستان کو اسکی قربانیوں کا صلہ دینے کی بجائے الٹا اسکے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا لیں اور اس کے ساتھ تجارتی و دفاعی معاہدے کئے۔

حال ہی امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کیلئے پاکستان طالبان پر دباؤ ڈالتے ہوئے انہیں جس طرح امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لایا اور امریکی فوجیوں کو نکلنے کیلئے اپنی سرحدی و فضائی حدود پیش کیں جس کا اعتراف پوری دنیا نے کیا لیکن امریکہ کا رویہ ملاحظہ کریں کہ اسکے صدر نے آج تک ہمارے وزیراعظم کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔امریکہ کی انہی بے وفائیوں اور ناروا سلوک کے پیش نظر عمران خان نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی دعوت پر روس کے دورے کا فیصلہ کیا۔کہا جا رہا ہے کہ اس دورے کا مقصد امریکہ کو یہ باور کرانا ہے کہ امریکہ کے علاوہ پاکستان کے پاس اور بھی آپشنز ہیں اور وہ اب نئے اتحادی اور نیا بلاک تلاش کر رہا ہے۔

خارجی معاملات پر نظر رکھنے والے بعض تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ چین، پاکستان ،ایران اور روس پر مشتمل ایک نیا بلاک تشکیل پانے جا رہا ہے جبکہ چین اور پاکستان روس اور ایران کو سی پیک میں شامل کرنے کے متنی ہیں اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس سے امریکہ اور یورپی ممالک کو شدید اقتصادی دھچکہ پہنچے گا۔ماضی میں پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں رہے ۔اس تلخی کی بنیار اس وقت پڑی جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے روس کی طرف سے دی گئی دعوت کو نظر انداز کرتے ہوئے 1951میں امریکہ کا پہلا دورہ کیا اور یوں پاکستان امریکی بلاک کا حصہ بن گیا۔

روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کچھ اُس وقت خوشگوار ہوئے جب 3اپریل 1965کو پاکستانی صدر ایوب خان نے ماسکو کا پہلا سرکاری دورہ کیا جس میں بھارت اور پاکستان کے مابین معاہدہ تاشقند طے پایااور اس میں روس نے ہی ثالث کا کردار ادا کیا تھا لیکن 1971کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات بہت بگڑ گئے کیونکہ اس جنگ میں روس نے بھارت کا مکمل ساتھ دیا تھا۔1979میں پاکستان کے روس کے ساتھ تلخ تعلقات میں شدت اُس وقت آئی جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور پاکستانی صدر ضیاء لحق نے امریکی ایماء پر روس کی مخالفت کرتے ہوئے امریکی مجاہدین کی کھلم کھلا امداد کرنا شروع کر دی۔

1996میں شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بننے کے بعد پاکستان نے روس کے قریب ہونے کی کوشش کی ۔1998میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے روس کا دورہ کیا۔اس کے بعد روس کے پاکستان کے ساتھ اُ س وقت تعلقات بہتر ہونا شروع ہو گئے جب بھارت روس کو چھوڑ کر امریکہ کے زیادہ قریب ہو گیا اور اس سے اسلحہ خریدنا شروع کر دیا۔ چنانچہ 2014میں روسی صدر پیوٹن نے پاکستان پر عائد یک طرفہ پابندیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت روس نے چار ایم آئی 35جنگی ہیلی کاپٹر فروخت کرنے کا وعدہ کیا۔

یاد رہے کہ روس بھارت کے ساتھ بھی تمام تجارتی و دفاعی معاہدے برقرار رکھے ہوئے ہے کیونکہ بھارت اِس وقت دنیا میں دوسری بڑی تجارتی منڈی ہے جسے روس کبھی بھی کھونانہیں چاہے گاجسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روس اور بھارت کے مابین اِ س وقت تجارت کا حجم 8ارب ڈالر جبکہ پاکستان کے ساتھ یہ حجم صرف 150ملین ڈالر ہے۔

عمران خان کے اس دورے میں کراچی سے قصور تک 1100کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن منصوبے کو حتمی شکل دی گئی ہے جو آئندہ سال تک مکمل ہو جائے گا جس میں 12.6ار ب کیوبک گیس حاصل کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ روس اس منصوبے کی تعمیر اور25برس تک آپریٹ کرے گا بعد میں اسے پاکستان کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس میں پاکستان کا حصہ 74فیصد اور کل لاگت 2.3ارب ڈالر آئے گی۔اسکے علاوہ اس دورے میں دو طرفہ تجارتی حجم کو موجودہ 789.8ملین ڈالرز سے بڑھانے کیلئے کئی منصوبے زیر غور آئے ۔

روسی صدر نے اس ناگفتہ بہ صورتحال میں جس طرح پاکستانی وزیراعظم کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور ان سے طویل ملاقات کی اس سے اُس سوچ کی نفی ہوئی ہے جن کا کہنا تھا کہ پیوٹن اور دیگر روسی حکام یوکرین کشیدگی میں مصروف ہونے کی وجہ سے پاکستانی وزیراعظم اور اسکے وفد پر زیادہ توجہ نہیں دے سکیں گے اور نہ ہی میڈیا میں کوئی کوریج مل سکے گی لیکن اس شاندار دورے سے ان تمام خیالات کی نفی ہو گئی ہے اور امریکہ کو بھی بہتر پیغام چلا گیا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button