جہالت پر مبنی اخلاص تباہی کا باعث
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بار ایک شاہی باز، محل سے اُڑ گیا اور پڑوس میں ایک بوڑھی عورت کے گھر پہنچ گیا۔ بڑھیا نے اس باز کو پکڑ لیا۔ بڑھیا نے جب اس کے لمبے لمبے اور بڑے بڑے ناخن اور پَر دیکھے تو اسے باز پر بہت ترس آیا۔ اس نے دل میں سوچا کہ اس بے چارے غریب کی آج تک کسی نے خبرگیری نہ کی۔ یہاں تک کہ اس کے ناخن اور پَر بڑے ہو گئے۔
چنانچہ باز پر رحم کھاتے ہوئے اس نے قینچی لی اور اس نے اس کے بڑے بڑے ناخنوں کو اور اس کے بڑے بڑے پَروں کو کاٹ دیااور کہا کہ افسوس کہ تو کِس نااہل کے یہاں پڑا ہوا تھا۔ جس نے تجھے یتیم کی طرح بنا رکھا تھا۔
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جاہل اور نادان کی محبت اسی طرح کی ہوتی ہے۔ کیوں کہ باز کے ناخن اور پَر ہی تو اس کے کمالات تھے، جن سے وہ شکار کرتا ہے، اسی وجہ سے وہ باز کہلاتا ہے۔ اور اس نادان عورت کو وہی کمالات عیب نظر آئے اور باز کو اس ظالمہ نے بالکل ہی بیکار کر دیا اور کبوتر کی طرح بنا دیا۔
ایک دن بادشاہ باز کو تلاش کرتے کرتے اس عورت کے گھر پہنچا اور اچانک اپنے باز کو اس حالت میں دیکھ کر رونے لگا۔ وہ باز اپنے پروں کو بادشاہ کے ہاتھ پر ملتا تھا اور زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ میں نے آپ سے علیحدگی کا انجام دیکھ لیااور اپنی بڑی غلطی کا مزہ چکھ لیا۔
زبانِ حال سے باز نے پھر کہا کہ اے بادشاہ! میں شرمندہ ہوں اور توبہ کرتا ہوں اور نیا عہد و پیمان کرتا ہوں۔
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس واقعہ سے نصیحت فرماتے ہیں کہ یہ دنیا اسی جاہل بوڑھی عورت کی مانند ہے کہ جو شخص اس دنیا پر مائل ہوتا ہے وہ بھی اسی طرح ذلیل اور غبی بے وقوف ہے۔
جو شخص کسی جاہل سے دوستی کرتا ہے اس کا وہی حشر و انجام ہوتا ہے جو اس شاہی باز کا اس بوڑھی نادان عورت کے ہاتھوں سے ہوا۔
حضرت مولانا اشرف تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بعض نادان اسی طرح خادمِ اسلام ہونے کے مدعی ہیں اور اپنی جہالت اور نادانی سے اسلام کو اپنے نظریاتِ احمقانہ کے تابع کرکے اس کی حقیقی صورت کو مسخ کر رہے ہیں اور عموماً یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے ذاتی مطالعہ سے اہلِ قلم بن بیٹھے ہیں اور کسی کامل استاد سے دین کو نہیں سیکھا۔ ایسے لوگوں کی تصنیف کے مطالعہ سے احتیاط واجب ہے۔ مسلم شریف میں ہے:
جس شخص سے دین سیکھو پہلے اس کے بارے میں اس وقت کے کاملین کی رائے معلوم کر لو ۔ یعنی جس برتن سے پانی پینا ہے اس کے اندر دیکھ لو کہ پانی صاف ہے یا کچھ اور ملا ہوا ہے۔ ورنہ جو اس میں ہے وہی منہ میں داخل ہو گا اور دینِ صحیح کے لیے اسناد ضروری ہے۔
اس واقعہ سے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ہمیں بہت اہم نصیحت فرمانا چاہتے ہیں جس پر عمل کرکے ہم دورِ حاضر کے بہت سارے فتنوں سے اپنے دین اور ایمان کو بچا سکتے ہیں۔وہ نصیحت یہ ہے اگر کسی کو شریعت کے تمام علوم میںکامل مہارت نہیں ہے تو وہ خود محض سرسری مطالعہ یا قرآن و حدیث کا اردو ترجمہ دیکھ کر‘ اپنے زمانے کے مستند علماء سے باقاعدہ تعلیم حاصل کیے بغیر رائے زنی کرنے سے احتراز کرے۔
ورنہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے طور پر تو اس بڑھیا کی طرح یہ سمجھے گا کہ میں دینِ اسلام کی بہت بڑی خدمت کر رہا ہوں مگر درحقیقت وہ اپنی خدمت کے ذریعے اسلام کی جڑیں کاٹ ڈالے گا۔ اور اسلام کے ان احکام کو، شاہی باز کی طرح جن کی بنیاد پر دینِ اسلام کی بہت اونچی پرواز ہے اور انہی احکام کی وجہ سے اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے، یہ اپنی خدمت کے ذریعے کاٹ ڈالتا ہے اور اسلام کو شاہی باز کی طرح دنیا کے سامنے ایک کبوتر کی طرح بنا کر پیش کرتا ہے۔
یہ نوبت عموماً اس وقت پیش آتی ہے جب بندہ ساری زندگی دنیوی محکموں میں ملازمت کرتا ہے ، اب اپنے محکموں سے ریٹائرمنٹ کے بعد دینِ اسلام کی خدمت اور اپنی ساری زندگی کی کوتاہیوں کی تلافی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو اب ہر کوئی مجتہد بن کر، قرآن مجید اور حدیث کی کتابوں کا ترجمہ دیکھ کر بڑے بڑے ائمۂ دین اور بزرگانِ دین کی تعلیمات کے برعکس اپنی رائے پیش کرتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
خدارا! ایسے لوگ سوچیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خدمت کی بجائے الٹا دینِ اسلام کو نقصان پہنچا بیٹھیں۔