مقصد کا شعور کامیابی کی ضمانت ہے
جاپان نے 1931ء میں چین کے شمال مشرقی حصہ (منچوریا) پر قبضہ کر لیا۔ اور وہاں اپنی پسند کی حکومت قائم کر دی ۔ اس کے بعد چین اور جاپان کے تعلقات خراب ہو گئے۔ 7جولائی 1937ء کو بیجنگ (پیکنگ) کے پاس مارکو پولو برج کا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ نے دبے ہوئے جذبات کو بھڑکا دیا۔ اور دونوں ملکوں کے درمیان فوجی ٹکراؤ شروع ہو گیا جو بالآخر دوسری جنگ عظیم تک جا پہنچا۔
اس وقت سے چین اور جاپان کے درمیان نفرت اور کشیدگی پائی جاتی تھی۔ چند سال پہلے جاپان اور چین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ اس کے مطابق جاپان کو چین میں ایک سٹیل مل قائم کرنا تھی‘ مگر معاہدے کی تکمیل کے بعد چینی حکومت نے اچانک اس کو منسوخ کر دیا۔
چین کے وزیراعظم ڈینگ زاپنگ (Deng Xiaoping)نے اشتراکی انتہاپسندی کو ختم کیا اور کھلے دروازہ (Open Door)کی پالیسی اختیار کی تو جاپان کے لیے دوبارہ موقع مل گیا۔ اب جاپان نے چین میں زبردست یورش کر رکھی ہے۔ اگر جاپان سے چین جانا ہو تو آپ کو ہوائی جہاز میں اپنی سیٹ پیشگی بک کرانی ہو گی۔ جاپان سے چین جانے والے ہر جہاز کی ایک ایک سیٹ بھری ہوئی ہوتی ہے۔
چین میں تجارت کے زبردست امکانات ہیں۔ جاپان چاہتا ہے کہ ان تجارتی امکانات کو بھرپور استعمال کرے۔ اس مقصد کے لیے جاپان نے یک لخت طور پر ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا دیا۔ ایک سیاح کے الفاظ میں‘ جاپان نے طے کر لیا ہے کہ وہ چین کی طرف سے پیش آنے والی ہر ایذا رسانی (Pinpricks)کو یک طرفہ طور پر برداشت کرے گا۔
مذکورہ سیاح نے لکھا ہے کہ میرے قیام ٹوکیو ( جون 1958ء ) کے زمانہ میں ریڈیو بیجنگ نے اعلان کیا کہ چین ایک میوزیم بنائے گا جس میں تصویروں کے ذریعے یہ دکھایا جائے گا کہ جاپانیوں نے چینیوں کے اوپر ماضی میں کیا مظالم کیے ہیں۔ جاپانیوں سے اس خبر پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ جب زیادہ زور دیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
’’آپ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے چینی دوستوں کا مہمیز لگانے کا طریقہ ہے۔ وہ ہمارے ضمیر کو متوجہ کر رہے ہیں۔‘‘
جاپانیوں کے سامنے ایک مقصد تھا۔ یعنی اپنی تجارت کو فروغ دینا‘ اس مقصد نے جاپان کے اندر کردار پیدا کیا۔ اس کے مقصد نے اس کو حکمت ‘ برداشت‘ اعراض کرنا اور صرف بقدر ضرورت بولنا سکھایا۔ اس کے مقصد نے اس کو بتایا کہ کس طرح وہ ماضی کو بھلا دے اور تمام جھگڑوں اور شکایتوں کو یک طرفہ طور پر دفن کر دے تاکہ اس کے لیے مقصد تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو سکے۔
بامقصد گروہ کی نفسیات ہمیشہ یہی ہوتی ہیں۔ خواہ اس کے سامنے تجارتی مقصد ہو یا کوئی دوسرا مقصد۔ اور جب کوئی گروہ یہ صفات کھو دے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس گروہ نے اپنی مقصدیت کھو دی ہے۔ اس کے سامنے چونکہ کوئی مقصد نہیں‘ اس لیے اس کے افراد کو کوئی کردار بھی نہیں۔
موجودہ زمانے میں ہماری قوم کی سب سے بڑی کمزوری اس کی بے کرداری ہے۔ جس میدان میں بھی تجربہ کیجئے آپ فوراً دیکھیں گے کہ لوگوں نے اپنا کردار کھو دیا ہے۔ ان کے اوپر کسی ٹھوس منصوبے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ جہاں بھی انہیں استعمال کیا جائے وہ دیوار کی کچی اینٹ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ دیوار کے پختہ ہونے کا ثبوت نہیں دیتے۔ اس کمزوری کی اصل وجہ یہی ہے کہ آج ہماری قوم کے لوگوں نے مقصد کا شعور کھو دیا ہے۔ وہ ایک بے مقصد گروہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کے سامنے نہ دنیا کی تعمیر کا نشانہ ہے اور نہ آخرت کی تعمیر کا نشانہ۔ یہی ان کی اصل کمزوری ہے۔
اگر لوگوں میں دوبارہ مقصد کا شعور زندہ کر دیا جائے تو وہ یقینا ایک جاندار قوم نظر آئیں گے۔ وہ دوبارہ ایک باکردار گروہ بن جائیں گے جس طرح وہ اس سے پہلے ایک باکردار گروہ بنے ہوئے تھے۔
قوم کے افراد کے اندر مقصد کا شعور پیدا کرنا ‘ ان کے اندر سب کچھ پیدا کرنا ہے۔ مقصد آدمی کی چھپی ہوئی قوتوں کو جگا دیتا ہے‘ وہ اس کو نیا انسان بنا دیتا ہے۔