افغانستان سے متعلق جوبائیڈن کا نیا حکم نامہ
گذشتہ سال اگست میں افغانستان پر طالبان کے مکمل قبضے کے بعد امید ہو چلی تھی کہ اب افغانستان میں امن و سکون کا ایک نیا دور شروع ہو گا اور اس کے باسی جو چالیس سال سے زائد عرصے سے نت نئی آزمائشوں اور ابتلاؤں سے گذرتے آ رہے ہیں سکھ کا سانس لیں گے لیکن افغانستان کو خانہ جنگی اور باہمی قتل و قتال سے تو نجات مل گئی لیکن خراب معاشی صورتحال نے اسے تیزی سی جکڑ لیا۔
امریکہ جس نے افغانستان کی دلدل سے نکلنے کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان کی مدد سے دونوں فریقین کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔بالآخر کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی رو سے امریکہ نے 30اگست تک افغانستان سے مکمل انخلا کیا۔
جس طرح سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کے باوجود نئے صدر جوبائیڈن نے امریکی معاہدے کو برقرار رکھا اور طالبان نے انخلا کے دوران امریکہ سے مکمل تعاون کیا تو اس سے دنیا کو یہ امید بندھ گئی تھی کہ اب امریکہ طالبان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی بجائے خوشگوار تعلقات قائم رکھے گا۔
جیسا کہ معاہدے میں بھی طے پایا تھا کہ افغانستان میں عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے اور افغان سرزمین کو امریکہ کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی صورت میں امریکہ طالبان حکومت کو تسلیم کر لے گا اس کے علاوہ عالمی تجزیہ کار بھی کہہ رہے تھے کہ امریکہ کو اس وقت طالبان اور القاعدہ سے زیادہ داعش سے خطرہ ہے جو خلافت پر تصور رکھتی ہے اور اس کے کارکن پوری دنیا میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں اس لئے اب امریکہ طالبان کے سر پر ہاتھ رکھ کر ان کو داعش کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن امریکہ نے افغانستان سے نکل کر تمام معاہدے اور تمام تجزیئے خاک میں اڑا دیئے۔اپنا مطلب نکلنے کے بعد طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لینا امریکہ کی فطرت میں شامل ہے اور یہی رویہ اس نے طالبان کے ساتھ اختیار کر لیا ہے۔
امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کے بعد نہ صرف طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ ان پر تجارتی اور معاشی پابندیوں کے علاوہ ان کے غیر ملکی اثاثے بھی منجمد کر دیئے جس کے نتیجے میں افغانستان کی معاشی صورتحال نہایت ابتر ہو گئی ہے اور لوگ فاقوں سے مر رہے ہیںکیونکہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو سالہا سال سے بیرونی حملہ آوروں اور باہمی جدال سے میدان کارزار بنا رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کوئی معاشی ڈھانچہ پنپ نہیں سکا اور اس کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر بیرونی امداد پر رہا ہے۔
جب طالبان برسر اقتدار آئے تو اس وقت افغانستان کے مرکزی بینک کے بیرون ملک اثاثوں کی مالیت دس ارب ڈالر تھی جس میں سے سات ارب ڈالر امریکہ کے شہر نیویارک میں موجود ہیں جبکہ دو ارب ڈالر یورپ اور متحدہ عرب امارات میں ہیں جو امریکہ ،دیگر ممالک اور عالمی بینک کی ہدایت پرمنجمد ہو چکے ہیں۔
ان کے اس اقدام پر افغانستان کی معیشت نہایت زبوں حالی کا شکار ہے۔ملک میں مہنگائی کا سیلاب آیا ہوا ہے۔لوگ بھوک کی وجہ سے اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔صحت کی صورتحال بھی خراب ہے ہسپتالوں میں ادویات نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ چار کروڑ کی آبادی کے صرف پانچ فیصد حصے کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ روزانہ کھا سکیں۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تین اعشاریہ دو ملین بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ 2022کے وسط تک غربت کی شرح 97فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ پاکستان،چین روس کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی امریکہ سے کئی بار مطالبہ کیا کہ کہ طالبان کی بجائے صرف انسانیت کی خاطر عالمی امداد کے ساتھ ساتھ منجمد رقم بحال کی جائے تاکہ افغانستان کو کسی بڑے انسانی المیے سے بچایا جا سکے ورنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی لیکن نہ تو امریکہ اور نہ ہی کسی یورپی ملک کے سر پر جوں تک رینگی بلکہ الٹا امریکہ نے اعلان کر ڈالا کہ امریکہ میں موجوافغانستان کے منجمد اثاثوں میں سے نصف ورلڈ ٹریڈ سنیٹر کے متاثرین میں تقسیم کئے جائیں گے۔
چنانچہ 11فروری کو امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت افغانستان کے منجمد سات ارب ڈالر کے فنڈز کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ساڑھے تین ارب ڈالر کی نصف رقم 2001کے متاثرین میں تقسیم کی جائے گی جبکہ ساڑھ تین ارب ڈالر کی بقایا نصف رقم افغانستان کے عوام کی انسانی امداد پر خرچ کی جائے گی۔
جوبائیڈن کے اس صدارتی حکم نامے کو دنیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بھوک سے ایڑیاں رگڑتے افغانوں کا پیسہ چوری کرنا نہ صرف اسکی لالچ و حرص کی غمازی کرتا ہے بلکہ اخلاقی طور پر اسکی گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔چین نے امریکہ کے اس اقدام کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کھلی ڈکیتی، بے شرمی اور اخلاقی گراوٹ ہے۔
چین نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ چوری شدہ رقم فوری طور پر افغان عوام کے حوالے کرے اور افغانستان، عراق، لیبیا میں امریکی فوجی حملوں کے متاثرین کو زرتلافی ادا کرے۔ پاکستان نے بھی اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ منجمد اثاثے افغانستان کی ملکیت ہیں اور اس رقم کو کس طرح استعمال کرنا ہے اسکا حق صرف افغانوں کو ہی ہے۔ لیکن دنیا میں چاہے جتنی بھی اس پر تنقید ہوتی رہے اس کو اس کی پرواہ ہی کہاں ہے وہ دوسروں کی لاشوں پر اپنے شیش محل تعمیر کرنے والا ملک ہے۔