اپنی مشکل خدا کے سامنے پیش کرنا سیکھیں

مومن اپنا ہر لمحہ خدا کی یاد میں گزارتا ہے کیونکہ زندگی میں پیش آنے والی ہر خوشی و غمی خدا کی طرف سے ہے، جب مشکل میں دعا کے ذریعے مدد طلب کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا کو قبول کرتے ہوئے اس مشکل کو آسانی میں بدل دیتے ہیں، دعا انبیاء کرام کی سنت ہے، اسی لئے علماء نے لکھا ہے کہ جسے دعا کی نعمت سے نوازا گیا اسے خیر سے نوازا گیا۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ دعا میں کیا مانگا جائے؟ اس حوالے سے اہل علم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دنیا بھی مانگیں اور آخرت بھی۔ انبیاء کی دعائیں اگر یاد ہوں تو بہت بہتر وگرنہ اپنی تعلیم اور سمجھ کے مطابق اپنی مادری زبان میں خدا سے خیر طلب کریں، خیر بہت جامع دعا ہے اس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی شامل ہے۔ذیل کی سطور میں نمونے کے طور پر چند انبیا ء کرام کی دعائیں پیش کی جارہی ہیں۔

حضرت یونس علیہ السلام ہمیشہ اللہ تعالی کو یادکرتے تھے ، اسی کی تسبیح و تحمید کیا کرتے تھے، انہیں اللہ تعالی کی ذات پر کامل اعتماد تھا ، چنانچہ جب مچھلی کے پیٹ میں بند ہوگئے اس حالت میں بھی اللہ تعالی کو یادکیا : لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین (سورہ الانبیا)تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں،ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، بیشک میںہی ظالموں میں سے ہوں بس اللہ تعالی نے اس سے نکلنے کی سبیل پیداکردی اور تین اندھیروں سے نجات دی’’کہ اگر وہ تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے اور وہی ان کے لیے قبر بن جاتی‘‘ اس کے برعکس فرعون نے دریائے نیل میں غرق ہوتے ہوئے اللہ تعالی کو یاد کیا : میں ایمان لایاکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں،جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں ہوں فرمانبرداروں میںسے۔ لیکن خوش حالی کے ایام میں اس نے کبھی بھی اللہ کویاد نہیں کیا ،بلکہ اتراتا رہا، غرور اور سرکشی میں مبتلا رہا ، اس لیے اللہ تعالی نے اس کی دعا قبول نہ کی اور وہ ہلاک وبرباد ہوگیا ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام ابوالانبیا ہیں ، ان کی دعاکی قبولیت نے روئے زمین پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے امن اور پھلوں کا رزق اور باشندگان عالم کے قلوب کا التفات مانگا : اے ہمارے رب!بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو ایک بغیر کھیتی والے میدان میں بسایا ہے تیرے احترام والے گھر کے نزدیک ، اے ہمارے رب ، تاکہ وہ نماز قائم کریں، پس لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف مائل ہوں ، اور انہیں پھلوں سے رزق دے ، تاکہ وہ شکر کریں(سورہ ابراہیم )چنانچہ دعا قبول ہوئی اوران ساری نعمتوں سے نوازا گیا۔

آپ نے ہونہار وسعادت مند فرزند کے ہمراہ کعبہ کی دیوار بنائی تو دعا کی کہ ان کی نسل میں ایک بہترین امت وجود میں آئے ، جس میں ایک رسول مبعوث ہو جو انہیں کلام الہی کی تعلیم دے اس میں موجود حکمت کی باتوں سے انہیں روشناس کرائے اور ان کی زندگیا ں سنوارے (سورہ بقرہ) اللہ تعالی نے اپنے خلیل کی دعا قبول کی اور اس کرہ ارضی پر امت مسلمہ خیر کے ساتھ نمودار ہوئی ، جس نے تاریخ کا رخ موڑدیا ، اس امت کو خیرامت کے لقب سے نوازا گیا ، اس امت کا وجود دنیا والوںکے لیے پیغامِ خیر ہے ، اس کا نبی رحمۃ للعالمین ہے ، جس کے فرمان لوگوں کے قلوب پر اور جن کا نقوش پا زمانے کے ریگستانوں پریوں ثبت ہوئے ہیں کہ وقت کی تیزوتند ہوا اور خطرناک آندھیاں انہیں ٹس سے مس نہ کرسکیں۔

دعا انبیا ء کرام کی سنت ہے، آپ ؐکی دعا ہی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تقدیر بدل گئی اور اسلام کے صفحہ اول میں داخل ہوگئے’’ اے اللہ!عمر بن خطاب یا عمر وبن ہشام میں سے کسی ایک کے ذریعہ اسلام کو تقویت عطاکر‘‘بدر کے سنگلاخ میدان میں آپ ؐکی دعا نے جبرئیل امین کو لا کھڑا کیا اور شیطان کو شکست کھانی پڑی ۔ احد میں فتح کے بعد فاتح لشکر کو مدینہ منورہ کے دروازے پردستک دینے کی ہمت نہ ہوئی ، حالانکہ ظاہری اعتبار سے اب کوئی رکاوٹ نہ تھی اور کوئی رکاوٹ تھی تو وہ نالہ نیم شب کی اثر انگیزی تھی کہ وہ لشکر مدینہ کے بجائے مکہ روانہ کردیاگیا۔ جنگ خندق میں دعا ؤں نے افواج عرب کو ہواؤ ں اور ان دیکھے لشکروں کے ذریعے پسپا کردیا۔ جنگ یرموک میں بھی وہی ہوا ؤں کا ریلا مدد کو موجود تھا ، اسی طرح قادسیہ کے مقام پر آپ ؐکے صحابہ کرام کی پشت پرایرانیوں کے خلاف وہ تیزوتندہوا ؤں کا لشکر موجود تھا۔

یقینا دعا مومن کا ہتھیار ہے ، رب کریم کے نادیدہ خزانوں کی چابی ہے ،لیکن اس کی حقیقت عقلیت پسندوں کی سمجھ میں نہیں آتی ، جب کہ یہ تو جبل ہمالیہ سے کہیں بڑھ کر ٹھوس اور باوزن ہے اور بدیہی اعتبارسے ثابت بھی ہے ، اللہ تعالی کے نادیدہ خزانوں کا عظیم وعمیق ربط دعا سے ہے ، جس کی قبولیت کے مختلف انداز ہیں ، کبھی بعینہ وہی مل جائے ، یا اس کا بدل بلکہ نعم البدل مل جائے ، جو ں کاتوں قبول نہ ہو بلکہ اللہ تعالی حکیم ہے اور اس کا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں اور وہ انسان کے انجام سے بخوبی واقف ہے ، چنانچہ اس کے ذریعہ کوئی مصیبت دور کردے ، یا یہ کہ اسے مومن کے لیے بطور توشہ آخرت محفوظ کردیاجائے لیکن دعاکی قبولیت کے ان انداز کو عقلیت پسند ذہن تمسخر کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے ، لیکن انہیں یہ پتا ہو نا چاہیے کہ پرخلوص کوشش اور دعا سے وہ نتائج نکلتے ہیں جن کی عقلی لحاظ سے بالکل امید نہیں ہوتی۔

دعا کی قبولیت کے آداب میںیہ شامل ہے کہ انسان اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کرے، خوب بندگی کرے ، تقوی اور پرہیزگاری کی راہ اپنائے، اگر تقوی اور پرہیزگاری کی روح نہ رہے تو انسان کی زندگی سے امن وسکون ختم ہو جاتا ہے اور پھر یہ صراط مستقیم سے منحرف ہو کر اپنی ناکامی کا نوشتہ تقدیر خود اپنے ہاتھوں تیار کرلیتا ہے ، تقویٰ تو یہ ہے کہ کبرونخوت اور غرور وسرکشی سے عاری اور تواضع وانکساری کے جذبات سے سرشار ہو ، جس کے لیے اللہ کی عطاکردہ نوازش کا احساس اور خالق دوجہاں کے منبع علم ہونے کا ایمان مہمیز کرتا ہے ۔

اسی طرح جوبھی صلاحیت اور توانائیاں ہوں وہ راہ الہی میں کھپادے ، پھر اللہ تعالی سے نصرت واعانت اور فتح وکامرانی کی دعا کرے ، اللہ تعالی کو تو پرخلوص جدوجہد اور صرف اسی پر توکل کرنا اور اسی سے مانگنا محبوب ہے ، اللہ تعالی نے ایسے ہی لوگوں کو فاتح اور غالب کرنے کا وعدہ کیا ہے خواہ تعداد میں تھوڑے ہوں اور وسائل کی قلت ہو ۔

دعا کی قبولیت میںبے شمارموانع ہیں : مثال کے طور پر حرام کھانا ، حرام پینا اور حرام لباس زیب تن کرنا، اللہ کے رسول ؐنے ارشاد فرمایا :آدمی لمبا لمبا سفر کرے گا، پراگندہ حال، غبار آلود معلوم ہوگا،وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے گا یارب یارب اور اس کا کھانا حرام ، اس کا پینا حرام ، اس کا لباس حرام اور اس کی پرورش حرام غذا سے ہو ئی ہو تو اس کی دعا کہا ں سے قبول کی جائے گی ۔( مسلم )
ایک دوسری حدیث میں ہے: اپنے کھانے کو عمدہ کرو ۔ حلال کھانا کھاؤ ۔ تمہاری دعا قبول کی جائے گی۔

دوسری چیز موانع دعا میں اخلاص کی کمی ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : پس اللہ تعالی کو پکارو، اسی کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہوئے ۔اللہ کے رسول ؐنے ارشاد فرمایا :اللہ تعالی کو خوش حالی میں یاد کرو اللہ تعالی تم کو سختی میں یادکرے گا (ترمذی) یعنی یہ کہ جب بندہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اس کے حدود کی پاسداری کرتاہے اور خوش حالی میں اس کے حقوق کی رعایت کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اسے معرفت خداوندی حاصل ہوجائے گی اور اللہ تعالی اس کو سختیوں سے بچائے رکھے گا ۔ حدیث میں ہے :بندہ مجھ سے نوافل کے ذریعہ قربت حاصل کرتاہے تو میں اس سے محبت کرتاہوں ، لہذا جب میں اسے محبوب سمجھتاہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ کچھ مانگتا ہے تو میں اس کو ضرور دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ۔(بخاری)

اللہ تعالی غافل کی دعا قبول نہیں کرتا چنا نچہ مستدرک حاکم میں مروی ہے کہ: اللہ تعالی سے دعاکرو اور قبولیت کا یقین رکھو یعنی اللہ تعالی غافل اور لاپرواہ دل سے نکلی ہوئی دعا کو قبول نہیں کرتاہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ ؐنے ارشاد فرمایا :اللہ تعالی دعامیں بہت زیادہ تضرع اور خضوع وخشوع کرنے والے اور بہت زیادہ مانگنے والے کو پسند کرتاہے ۔دعا عبادت ہے ، نجات کا ذریعہ ہے لہذا جو بھی دعا سے اعراض کرے ، اللہ سے نہ مانگے اللہ اسے ناراض ہوتا ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اورتمہارے رب کا فرمان سرزدہوچکا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاو ں کو قبول کروں گا،یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وہ جلد ہی ذلیل ہوکرجہنم میں جائیں گے(سورہ غافر) لہذا اسی سے سب کچھ ہونے کی لو لگائیں ، وہی حاجت روا مشکل ہے، اس کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہ ہوں اور ہرلمحہ ، ہرپل اسی سے مانگیں ۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button