عوامی گھبراہٹ محسوس کرنے سے قاصر حکمران
تحریک انصاف حکومت کے اقدامات سے لگتا ہے کہ اسے عوامی مسائل کا ادراک ہے اور نہ ہی کوئی پروا ہے، گزشتہ تین سالوں کے دوران کم آمدن طبقہ کے مسائل کئی گنا بڑھ چکے ہیں ایسی صورتحال میں کون حکومت کی حمایت میں کھڑا ہو گا۔ عوام گھبراہٹ کا شکار ہیں اور وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، مشکل حالات میں عوام گھبرائیں نہیں تو کیا خوشی کا اظہار کریں؟
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 4 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ برینٹ کروڈ کی قیمت میں 3.7 فیصد کمی کے بعد خام تیل کی قیمت 92.93 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے، امریکا میں تیل کی قیمت میں 4 فیصد کمی کے بعد امریکی تیل کی قیمت 91.64 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا حد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 12 روپے تین پیسے کا اضافہ کے بعد فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 159 روپے 86 پیسے تک پہنچ گئی ہے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 9.53 روپے فی لیٹر، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 9.43 روپے فی لیٹر، مٹی کے تیل کی قیمت میں 10.08روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے نوٹی فکیشن کے مطابق نئی قیمتیں 28 فروری تک لاگو رہیں گی۔ قبل ازیں وزیراعظم آفس کو آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری موصول ہوئی تھی، جسے وزیراعظم نے نظرثانی کے لیے واپس بھیج دیا تھا۔ ارسال کردہ سمری میں آئی ایم ایف کی شرائط کے عین مطابق پٹرول کی قیمت میں 12 روپے تین پیسے فی لیٹر اضافے کی تجویز دی گئی تھی۔ وزیراعظم نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی سمری نظر ثانی کے لیے وزارت خزانہ کو واپس بھیج دی تھی لیکن وزارت خزانہ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔
اس وقت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں، سابقہ ادوار میں عالمی مارکیٹ میں فی بیرل کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود حکومتوں نے سارا بوجھ عوام پر نہیں ڈالا، پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں عالمی مارکیٹ میں پٹرول 147 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گیا تھا، آج کل تو اس سے خاصا کم ہے مگر اس وقت پیٹرول کی قیمتیں 100 روپے تک محدود رہی تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے معیشت کو سنبھالنا تحریک انصاف حکومت کے بس کی بات نہیں رہی ہے اگر انہیں تھوڑا سا بھی احساس ہوتا تو ہر خسارے کو عوام سے پورا کرنے کی کوشش نہ کی جاتی۔
ایسے موقع پر جب عوام مہنگائی کے ستائے دونوں ہاتھوں سے دوہائیاں دے رہے ہیں وزیراعظم عمران خان دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی نہیں ہے، حکومتی ذمہ داران کی طرف سے اس طرح کے بیانات عوام کے دکھوں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے ایسے ہی خیالات کا اظہار ملک کے پہلے ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم ’’راست‘‘ کے اجرا کی تقریب میں خطاب کے دوران کیا کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں غربت بڑھی جبکہ پاکستان میں قدرے کم ہوئی ہے، اگر غربت کم ہوئی ہے تو یہ ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے، حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے پر جائزہ لیں گے کہ غربت ختم ہوئی یا نہیں؟
یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف قائدین کے بسیار دعوؤں کے باوجود حکومت کی کارکردگی میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے بلکہ آنے والا ہر دن پہلے سے بدتر ہوتا ہے، ان حالات میں اگر اپوزیشن حکومت مخالف تحریک شروع کرتی ہے تو عوام کی بڑی تعداد اپوزیشن کی حمایت کی بجائے حکومت کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آئے گی بلکہ موجودہ حالات میں تو تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنان بھی حکومت کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔
ارکان قومی و صوبائی اسمبلی تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں جس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی صفوں میں بھی اتحاد نہیں رہا ہے، اس لئے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں اگر ق لیگ جیسے اتحادی حکومت کے ساتھ رہتے ہیں تب بھی حکومت کی مشکلات کم ہونے والی نہیں ہیں کیونکہ جہانگیر ترین گروپ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
لاہور میں عون چوہدری کی طرف سے جہانگیر ترین گروپ کے اعزاز میں دیئے جانے والے عشائیے میں پارنچ ارکان قومی اسمبلی اور 20ارکان پنجاب اسمبلی نے شرکت کی ہے۔ اس موقع پر جہانگیر ترین نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں سب کا مل کر بیٹھنا ضروری تھا ، ان کا کہنا تھا کہ عوام کا مہنگائی کے طوفان کے سامنے گزارہ کرنا مشکل ہے۔
جہانگیر ترین نے مہنگائی کا ذکر کر کے واضح اشارہ دے دیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ اب تحریک انصاف حکومت اور قائدین کے گھبرانے کے دن آ گئے ہیں کیونکہ کوئی بھی حکومت یا سیاسی جماعت مخالفین کا مقابلہ اس وقت تک کر سکتی ہے جب اسے گھر سے مزاحمت کا سامنا نہ ہو، آج تحریک انصاف کو گھر کے اندر اور باہر سے مخالفت کا سامنا ہے تو یہ اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اگر عوام کو سہولت پہنچانے کی طرف توجہ دی ہوتی تو اپوزیشن جماعتیں اپنی موت آپ مر جاتیں اور دیرینہ اراکین بھی مشکل میں ساتھ نہ چھوڑتے۔
عوام اب یہ سوچنے لگے ہیں کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت کو مزید مہلت دی گئی یا حکومت مزید کچھ عرصہ اقتدار میں رہ گئی تو ہر شعبے کا نقصان بڑھ جائے گا جسے کوئی بھی حکومت پورا نہیں کر سکے گی۔