تابعداری میں عوام کے مفاد کو نظر انداز نہ کریں
آزاد کشمیر حکومت نے وفاق کے ساتھ مہنگی بجلی کا معاہدہ کر لیا، عوام کے کندھوں پر اربوں روپے کا بوجھ ڈال دیا گیا
پی ٹی آئی کی حکومت اگر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے تو کچھ حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ کپتان کو ٹیم اچھی نہیں ملی حالانکہ یہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ ٹیم کا انتخاب خان نے خود کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے انتخاب میں کبھی بھی شرمندہ نہیں ہوئے۔ اگر ٹیم اچھی نہ ہوتی تو وہ دس وزراء کو حسن کارکردگی کا ایوارڈ نہ دیتے؟
جس طرح وزراء کا انتخاب کپتان نے خود کیا تھا اسی طرح صوبوں کے وزرائے اعلی کا انتخاب بھی ان کی مرضی سے ہوا ہے، عثمان بزردار پر آپ لاکھ تنقید کریں مگر یہ حسن انتخابخان صاحب کا ہی ہے اسی طرح ایک چہیتے وزیر کی سفارش پرخیبرپختونخوا کے وزیراعلی کا انتخاب کیا گیا تھا اور اسی قسم کی صورتحال کاسامنا گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے عوام کو بھی ہے آزاد کشمیر کے وزیراعظم سے لے کر دیگر صوبوں کے وزرائے اعلی کے انتخاب میں ناتجربہ کاری کے ساتھ ساتھ تابعداری کی صفت کو خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے تابعداری بھی ایسی کہ جو غلامی کی بدترین شکل میں ہو۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو ہی لےلیں جو زندگی میں شاید دوسری مرتبہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ایک آدھ وزارت کے علاوہ حکومت چلانے کا انہیں کوئی خاص تجربہ نہیں مگر خان صاحب کی نظر انتخاب ان پر کیسے ٹھہری، اس حوالے سے تو بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ البتہ سردار قیوم نیازی کپتان کو راضی کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں یہی وجہ ہے کہ سردار عبدالقیوم خان نیازی تابعداری میں پنچاب کے وزیراعلی کو بھی مات دے گئے ہیں، اگر وزیراعظم پاکستان کی طرف سے حسن کارکردگی ایوارڈ کے دوسرے مرحلے کا اعلان ہوا تو قیوم نیازی سرکار پہلے نمبر پر ہو گی۔
نیازی حکومت کا تازہ کارنامہ ہی ملاحظہ کریں کہ حال ہی میں آزاد کشمیر حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان واٹر یوز چارجز کے معاہدے اور مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں اس معاہدے کے بعد آزاد کشمیر کے عوام کو منگلاڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی 2.59روپے فی یونٹ کی بجائے 18روپے فی یونٹ خریدنا پڑے گی(یہی بجلی واپڈا اس سے قبل ہائیڈرو الیکٹرک بورڈ سے واپڈا 2روپے دس پیسے یونٹ کے حساب سے خرید کر آزاد کشمیر محکمہ برقیات کو 2.59روپے فی یونٹ دیتا تھا) وفاقی حکومت دیگر10ڈسکوز کی طرح اپنا ڈسکوز قائم کرے گی اس وقت نیپرا کے پاس آزاد کشمیر میں پاور پراجیکٹس پربراہ راست ٹیرف کا اختیار نہیں لیکن ان معاہدوں پر عمل درآمد کے بعد نیپرا آزاد کشمیر میں بجلی کی قیمتیں مقرر کرنے کا براہ راست اختیار ہو گا۔
ان معاہدوں سے آزاد حکومت کو واٹریوزچارجزکی مد میں سالانہ 12ارب روپے کااضافہ ہوگااب تک آزادکشمیرکوواٹر یوز چارجز کی مد میں ایک ارب روپے سے بھی کم رقم مل رہی تھی یہ معاہدہ منگلا ڈیم کی طرح نیلم ،جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ اور نئے بننے والے منصوبوں جیسے کروٹ، آزاد پتن اور کوہالہ پاور پروجیکٹس بھی لاگو ہو گا۔ یوں گیارہ ارب روپے آزاد حکومت کو دے کر عوام سے کھربوں روپے سالانہ نکال لیے جائیں گے۔ ان معاہدوں سے سراسر آزادکشمیر کے عوام کا نقصان ہے مگر نیازی سرکارنے ان معاہدوں سے قبل آزاد کشمیر کی دیگر جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
سردار عبدالقیوم نیازی نے تابعداری کے شوق میں اپنے ہاتھ پائوں کاٹ کر وفاقی حکومت کی جھولی میں پھینک دیئے ہیں، آزاد کشمیر کے عوام کو پہلے ہی بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے اب لوڈ شیڈنگ کے ساتھ بھاری بھرکم بجلی کے بل بھی ادا کرنا ہوں گے اور منگلاڈیم سمیت دیگر ہائیڈرو پاور پرجیکٹس پر پہلا حق جو آذاد کشمیر کا تھا اس سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت ہرہفتے بجلی مہنگی کر کے نیاریکارڈ قائم کر رہی ہے ایسے میں آزاد کشمیر کے چھوٹے نیازی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے؟انہوں نے مہنگی بجلی کابوجھ آزاد کشمیر کے عوام کے کندھوں پر ڈال کر اپنے کپتان کا بوجھ ہلکا کیا ہے ۔ آزاد کشمیر کے نیازی کی یہی نیازمندی میاں والی کے اصلی نیازی کو بھا گئی ہے ۔
واضح رہے کہ راجہ فاروق حیدر اس معاہدے سے اس لیے دستبردار ہو گئے تھے کہ اس معاہدے میں ریاست کے عوام کا نقصان تھا اب اگر آزاد حکومت کو بارہ ارب روپے ملیں بھی گے تو اس میں وزراء کو تو کچھ فائدہ ہوگا عوام بے چارے مہنگائی کی چکی میں مزید پس جائے گی ۔ اس وقت آزاد کشمیر میں بجلی کے درجنوں منصوبے اپنے آخری مراحل میں ہیں جن میں آزاد کشمیر میں 969میگاواٹ کا نیلم جہلم ہائیڈل منصوبہ، 1124میگاواٹ کا کوہالہ منصوبہ ،جاگراں ٹو 48میگا واٹ، نگدر دیواریاں 48 میگاواٹ، پٹرینڈ 148 اور7 سو میگاواٹ کا آزاد پتن منصوبہ پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے 720میگاواٹ کے منصوبے کے علاوہ دودھنیال اور مال ہائیڈل پاور پراجیکٹ پر بھی ابتدائی کام جاری ہے۔
محتاط اندازوں کے مطابق ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے بعد نیشنل گریڈ میں پانچ سے چھ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی مگر سوال یہ ہے کہ ان منصوبوں سے آزاد کشمیر کے عوام کو کیا فائدہ ملے گا؟ جب ہم نے تابعداری میں تھوڑے سے منافع کے لیے عوام کو آگ میں جھونک دیا ہو۔ آزاد کشمیر کی نیازی حکومت کو عوام سے کیا سروکا رہے، ان کی پہلی ترجیح اپنا خاندان ہے وہ پہلے دن سے چن چن کر اپنے خاندان کے تمام بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔
بھائی، بھتیجے سمیت درجنوں قریبی عزیزوں کو وہ ایڈجسٹ کر چکے ہیں اپنے عزیزوں سے فارغ ہونے کے بعد انہیں جب بھی موقع ملتا ہے تو وہ پورے آزاد کشمیر کی بجائے اپنے حلقے کے عوام کی بھلائی پر توجہ دیتے ہیں، کشمیر لبریشن سیل میں بھرتیوں سے لے کر عدلیہ تک اپنے لوگوں کو ایڈجسٹ کر کے میرٹ کی نئی مثال قائم کی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم خوشحال ہے تو پوری ریاست خوشحال ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ان معاہدوں سے حاصل ہونے والے ان بارہ ارب روپے سے یہ لوگ ضرور خوشحال ہو جائیں گے ۔ کپتان نے اسی لیے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں کہ قیوم نیازی اقربا پروری ،میرٹ کی پامالی کریں گے تو تو پھر آزاد کشمیرکو صوبہ بنانے کا مقصد پورا کر لیا جائے گا جس پر چھوٹا نیازی فورا دستخط کر دے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیرحکومت کو اندرونی اختلافات کا بھی سامنا ہے اندرونی اختلافات کی وجہ سے حکومت اور وزیراعظم کمزور ہوتا ہے ایسے وزیراعظم کا سارا دار و مدار وفاقی حکومت یا سرپرستوں پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ چھوٹے نیازی کو کبھی تنویر الیاس اور کبھی بیرسٹرگروپ سے ڈرایا جاتا ہے کہ اچھے بچے بن کر کام کرو ورنہ دوسرا آپشن موجود ہے ۔
گزشتہ چھ سات ماہ میں سردار قیوم نیازی اپنے کپتان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آزاد کشمیر کے عوام پر کوئی گہرے نقوش نہیں چھوڑ سکی ہے جس طرح وفاقی حکومت زوال پذیر ہے اسی طرح آزاد کشمیر حکومت کا جہاز اڑان بھرنے کے ساتھ ہی نیچے کی طرف آ رہاہے ۔ وفاق میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے سیاسی ماحول گرم ہے ایسے میں پی ٹی آئی آزاد کشمیر میں وزارت عظمی کی دوڑ میں شامل گھوڑے بھی اپنی رفتار تیز کر رہے ہیں اگر وفاق میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیاب ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں قیوم نیازی کی حکومت لڑکھڑا جائے گی یا وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوتی ہے تو پھر بھی قیوم نیازی کو گھر جانا ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کی اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کے ناراض رہنمائوں کے ساتھ رابطے میں ہیں وفاق میں کھڑاک ہونے کی صورت میں آزاد کشمیر میں بھی کھڑاک ہو جائے گا۔ وفاق میں تبدیلی کے بعد اگر پیپلزپارٹی بیرسٹرسلطان گروپ سے معاملات طے کر کے وزارت عظمی حاصل کر لیتی ہے تو ایسی صورت میں ن لیگ بھی پیپلزپارٹی کاساتھ دے گی جبکہ سردار تنویر الیاس بھی متحرک ہیں کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی بجائے پی ٹی آئی کی صفوں سے اپنے ہمنوا تلاش کر رہے ہیں، اگرچہ انہیں کوئی زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے مگر تیل دیکھ اور تیل کی دھار دیکھ کے مصداق وہ بھی موقع کے انتظار میں ہیں جوں ہی انہیں موقع ملے گا وہ قیوم نیازی سرکار کو چلتا کر دیں گے۔
سردار قیوم نیازی نے صوابدیدی عہدوں پر جو تعیناتیاں کی ہیں اس حوالے سے بھی پی ٹی آئی کی صفوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں پی ٹی آئی علماء و مشائخ ونگ میرٹ سے ہٹ کر نامزدگیوں پر سراپا احتجاج ہے منہ زور بیور و کریسی وزیراعظم کے قابو نہیں آ رہی چند طاقت ور سیکرٹریوں نے وزیراعظم کو یرغمال بنایا ہوا ہے، وزیراعظم خوشامدیوں میں گھرے ہوئے ہیں چھ ساتھ ماہ میں کوئی عوامی فلاحی منصوبہ شروع نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کی طرف سے کسی بڑے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے اہداف پورے نہ ہونے کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ ضائع ہو رہا ہے ایسے میں سردار قیوم نیازی کی حد سے زیادہ تابعداری غلامی کو بھی مات دے گئی ہے۔