جب صحابی سے بلا ارادہ فوجی راز افشاء ہو گیا
مسجد نبوی کے حصے ریاض الجنۃ میں مختلف ستون ہیں۔ ان میں سے ہر ستون کا ایک تاریخ پس منظر اور وجہ تسمیہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ ستون اپنے اندر ایک خاص جاذبیت اور کشش رکھتے ہیں۔ بعض پر ان کے نام لکھے ہوئے ہیں ۔ غور سے دیکھیں تو ان میں ایک نام ’’اسطوانہ ابو لبابہ‘‘ بھی ہے۔ یہ ستون ابولبابہ سے کیوں منسوب ہے؟
آئیے یہ جاننے کے لیے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔
یہ انصاری صحابی تھے۔ بنو قریظہ کے علاقہ میں ان کے باغات تھے۔ آل اولاد بھی وہیں تھی۔ اسلام سے پہلے یہ بنو قریظہ کے حلیف تھے۔ اسلام لانے کے بعد بھی ان کے سابقہ تعلقات اور لین دین باقی رہا۔ یہودی نے غزوۂ خندق یا احزاب میں مسلمانوں کے ساتھ جو بدعہدی اور غداری کی وہ قارئین سیرت سے ڈھکی چھپی نہیں۔ غزوۂ خندق میں مسلمانوں کی فتح کا تصور بھی مشکل تھا۔ دس ہزار کا لشکر جرار جس نے یہودیوں کے ایماء پر مدینہ کامحاصرہ کر لیاتھا۔
مدینہ کی چھوٹی سی بستی جس کے بچوں‘ بوڑھوں ، جوانوں ، عورتوں اور بچوں کی کل تعداد پانچ ہزار سے زائد نہ تھی، اُسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کفر کی ساری طاقتیں اتحادی بن کر جمع ہو گئی تھیں۔ یہ ایک معجزہ اور اللہ کی خاص مدد تھی کہ مسلمان فتح سے ہمکنار ہوئے ۔
دوران جنگ مسلمانوں کے ساتھ بدعہدی کرنا‘ کافروں کا ساتھ دینا‘ مسلمان عورتوں کے قلعے پر حملے کا ارادہ کرنا، بنیادی طور پر اس جنگ کی آگ بھڑکانا اور کافروں کو حملے پر اُکسانا معمولی جرائم نہ تھے کہ ان پر خاموشی اختیار کر لی جاتی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے واپس آئے تو حضرت جبریل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے۔ عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہتھیار رکھ دیے ہیں مگر فرشتوں نے ابھی ہتھیار نہیں رکھے۔ اُٹھیے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بنو قریظہ کا رخ کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اعلان کرایا کہ جو شخص ہمارا مطیع او رفرمانبردار ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں پڑھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے انتظامی اُمور ابن امکتوم کو سونپ دیے۔ اور بنو قریظہ کے دیار میں ’’انَّا‘‘ نامی کنویں کے قریب قیام فرمایا۔ یہود کے قلعوں کامحاصرہ شروع ہوا تو ان کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ بچا۔ انہوں نے سوچا کہ ہتھیار ڈالنے سے پہلے کیوں نہ اپنے حلیفوں سے مشورہ کر لیں۔ ممکن ہے معلوم ہوجائے کہ ہتھیار ڈالنے کا نتیجہ کیا ہو گا۔ انہوں نے مشورہ کے لیے پرانے حلیف ابولبابہ بن عبدالمنذر کا انتخاب کیا۔ پھر اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بنو قریظہ نے درخواست کی کہ انہیں ان کے پاس بھیج دیں تاکہ ان سے مشورہ کر سکیں۔
جب وہ وہاں پہنچے تو مردان کی طرف دوڑ پڑے اور عورتیں اور بچے ان کے سامنے دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ ابولبابہ نے ان کی حالت دیکھی تو رقت طاری ہو گئی۔ یہود نے ان سے مشورہ کیا کہ کیا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دیں؟ انہوں نے کہا: ہاں ! مگر ساتھ ہی حلق کی طرف ہاتھ سے اشارہ بھی کر دیا۔ مراد یہ تھی کہ اب ذبح کر دیے جاؤ گے۔ وہ غیر ارادی طور پر ذبح کرنے کا اشارہ تو کر بیٹھے مگر فوراًہی احساس ہوا کہ یہ اشارہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیانت ہے۔ چنانچہ وہ بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے سیدھ مسجد نبوی پہنچے اور اپنے آپ کو اس ستون کے ساتھ باندھ لیا جس کا ذکر اس مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا : اب مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کھولیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ جب میری توبہ قبول ہو گی تبھی میں اپنے آپ کو آزاد کروں گا۔ وہ مسلسل چھ دن اور چھ راتیں اسی ستون کے ساتھ بندھے رہے۔ ان کی بیوی نمازوں کے اوقات میں انہیں کھول دیتی اور نماز ادا کرنے کے بعد پھر باندھ دیتی تھیں۔
ابولبابہ عبدالمنذر کے اس واقعہ میں دوسرے بہت سے اسباق کے ساتھ یہ سبق بھی موجود ہے کہ ایک شخص سے نادانی میں بلا ارادہ ایک فوجی راز افشاء ہو گیا۔ اس غلطی کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہیں تھا۔ وہ چاہتے تو کسی کو اپنی غلطی کی ہوا بھی نہ لگنے دیتے ۔ مگر یہ قوت ایمانی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور یہ احساس تھا کہ میرا سمیع و بصیر اور دانائے قلوب پروردگارمجھے دیکھ رہا ہے۔
اسی احساس کے زیرِ اثر انہوں نے نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ اپنے لیے از خود سزا بھی تجویز کر لی اور اپنے آپ کو ستون کے ساتھ باندھ لیا۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں گناہ کے معترف اور نادم شخص کے لیے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی اور محبت کے جذبات جوش مارنے لگتے ہیں۔ گناہ پر اصرار ، فخر اور اس پر اڑے رہنا بدبختی کی نشانی ہے ۔ حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ اور بھی اہم تھا۔ یہ اپنی قوم کے سرکردہ اور نمایاں افراد میں سے تھے، لہٰذا لوگوں کی دلی خواہش تھی کہ ان کی توبہ قبول ہو جائے۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی چاہتے تھے، چنانچہ چھ راتیں گزرنے کے بعد صبح سویرے یہ وحی نازل ہوئی۔ سورۂ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ: ’’کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے۔ انکا عمل ملا جلا ہے کچھ نیک ہے اور کچھ برا۔ بعید نہیںکہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کی نظر فرمائے کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
اس روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف فرما تھے۔ اس شفیق ، رحیم و رؤف اور مہربان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس ساتھی کی توبہ قبول ہونے پر اتنی خوشی ہوئی کہ فرط مسرت سے بے اختیار ہنس پڑے۔ صحابہ کرام ہوںیا صحابیات یا امہات المؤمنین ان کی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک بات نوٹ کرتے تھے۔ ہماری اماں جان سید اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنستے دیکھا تو عرض کرنے لگیں: ’’اے اللہ کے رسول : آپؐ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟
اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ اسی طرح ہنساتا رہے۔ ارشاد ہوا کہ ابولبابہ کی توبہ قبول ہو گئی ہے۔ اس وقت تک پردہ کے احکامات نازل نہیں ہوئے تھے۔ ام سلمہ نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگر اجازت ہو تو میں ابولبابہ رضی اللہ عنہ کو خوش خبری سنا دوں۔ ارشاد ہوا: ہاں اگر چاہو تو (سنا دو)۔ وہ اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑی ہو گئیں اور فرمانے لگیں: اے ابولبابہ : ’’تمہیں مبارک ہو ، اللہ نے تمہاری توبہ قبول کر لی ہے۔‘‘
ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خبر ملی تو وہ ابو لبابہ کو کھولنے کے لیے دوڑے چلے آئے۔ اب ذرا دنیائے محبت کی یہ ادا بھی ملاحظہ فرمائیں۔ انہوں نے فوراً صحابہ کو روک دیا۔ کہنے لگے کہ:
’’اللہ کی قسم ! اب تو مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اپنے دست مبارک سے آزاد فرمائیں گے۔‘‘ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فکر کی نماز کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خود اپنے دست مبارک سے کھولا اور آزاد فرما دیا۔