چین سے معاشی شراکت داری خود کفالت کی ضمانت
پاکستان چھ دہائیوں تک امریکی بلاک کا حصہ رہا ان بیتے برسوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا اور امریکہ کے مطلب کیلئے ہم بار بار کیوں استعمال ہوتے رہے؟
قیام پاکستان کے محض دو ماہ بعد یعنی 20 اکتوبر 1947ء کو امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ابتدائی ممالک میں شامل تھا، پاک امریکہ تعلقات سات دہائیوں پر مشتمل ہیں یوں پاکستان طویل عرصہ تک امریکی بلاک کا حصہ رہا ہے، اس دوران متعدد بار دو طرفہ تعلقات تعطل کا شکار ہوئے مگر بہر صورت تعلقات قائم رہے، تاہم افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں جس میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے آج تک دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدیداران کے درمیان رابطے اور تعلقات کا فقدان ہونے کی وجہ سے ایک کھچائو کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
افغانستان میں امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے موقع پر رات کے اندھیرے میں جس انداز سے امریکی اور نیٹو ممالک کی اتحادی افواج کو افغانستان سے نکلنا پڑا، امریکی قیادت اپنی اس خفت اور سبکی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے امریکی فوجیوں کو بحفاظت نکالنے میں جو کردار ادا کیا، وہ اس امر کا متقاضی تھا کہ امریکہ پاکستان کا ممنون ہوتا لیکن اس کا رویہ بدستور غیردوستانہ رہا، کیونکہ پاکستان کے چین کی جانب جھکائو کو پسند نہیں کرتا، وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان چین دوستی امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے دفاعی نوعیت کے متعدد معاہدے کر رکھے ہیں۔ امریکہ میں ہونے والی جمہوری ملکوں کی کانفرنس میں بھی پاکستان کی عدم شرکت پر اسے سخت غصہ ہے۔
پاکستان افغانستان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے اور اس کی انسانی بنیادوں پر امداد و اعانت کرنے کے بارے میں جس غیرمعمولی دلچسپی کا مظاہرہ کرتا چلا آرہا ہے اس سے بھی امریکہ کو اختلاف ہے اور وہ ہماری اس پالیسی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا جس کا سب سے بڑا ثبوت آئی ایم ایف سے ڈیل اور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اس کا پاکستان کے ساتھ انتقامی رویہ ہے، وہ پاکستان کو مالی اور معاشی طور پر پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا۔
وزیراعظم عمران خان نے حال میں کئے جانے والے چین کے دورہ کے بعد ایسا بیان دیا ہے جس سے واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان امریکی بلاک سے نکلنے کا حتمی فیصلہ کر چکا ہے، امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا، امریکہ کو جب اور جہاں ضرورت پڑی اس نے ہمیں دوست بنایا اور مطلب نکلنے پر پھر چھوڑ دیا۔
امریکہ بھی پاکستان کا اچھا دوست ہے لیکن یہ چین کی طرح کی دوستی نہیں ہے، چین نے ہرضرورت میں ہماراساتھ دیا، پاک چین تعلقات عوام کی سطح پر سرایت کر گئے ہیں، پاکستان اور چین دوبارہ سرد جنگ کا دور نہیں چاہتے، امریکا اور چین کے درمیان رقابت کے بجائے صحت مند مقابلے سے پوری دنیاکو فائدہ ہوگا۔ اس حوالے سے پاکستان ماضی کی طرح اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہتا ہے، انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکا کا سارا مشن ہی غلط اطلاعات اور منصوبہ بندی پر مبنی تھا، اسے ناکام ہی ہونا تھا، افغانستان کی امداد نہ کی گئی تو انسان کا پیدا کردہ سب سے بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔
پاکستان چین کے ساتھ اس لئے بھی شراکت داری قائم کر رہا ہے کیونکہ پاکستان معاشی طور پر اس وقت جس بحران سے دوچار ہے اس میں بہتری لانے کے لیے اسے غیر ملکی قرضوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے دروازے پر دستک دینا اب ہماری مجبوری بن چکا ہے۔
مالی بحران سے نکلنے کیلئے پہلے پاکستان کو اپنے دوست ممالک سے رجوع کرنا پڑا۔ چنانچہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے علاوہ چین ہی وہ ممالک ہیں جس نے اس مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا اور پاکستان کی غیر مشروط مدد کی ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سے عالمی ایشوز پر پاکستان اور چین کا مؤقف یکساں ہے۔ کشمیر کے معاملے میں چین نے جس طرح ہماری مدد کی ہے، وہ کسی بھی اسلامی ملک سے زیادہ ہے۔
پاکستان نے چین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دلانے اور پھر اسے سلامتی کونسل کا رکن بنوانے میں جو کردار ادا کیا تھا، چین اس کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ پاکستان تعلقات کی تاریخ انتہائی افسوسناک رہی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عوامی سطح پر امریکہ کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں جبکہ پاکستان کے عوام چین سے دلی محبت کرتے ہیں، کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی ہے اور اسے دفاعی لحاظ سے مضبوط کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
امریکہ یہ چاہتا ہے کہ بھارت کو چین کے مقابلے میں میں کھڑا کیا جائے تاکہ عالمی سطح پر چین کا کردار محدود رہے اور امریکہ کی دنیا پر بالادستی قائم اور دائم رہے۔ امریکہ دوستی 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران بے نقاب ہوئی جب امریکہ نے نہ صرف امریکی اسلحہ کی سپلائی روک دی بلکہ فالتو پرزے دینے سے بھی انکار کر دیا جس کی وجہ سے امریکی اسلحہ جنگ کے دوران پوری طرح استعمال نہ کیا جا سکا اور پرزے نہ ملنے کی وجہ سے وہ ناکارہ ہوگیا۔
امریکہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان سے وعدے کرتا رہا کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر کشمیر کا مسئلہ حل کرا دے گا، امریکہ اپنے قومی مفادات کیلئے پاکستان کو استعمال تو کرتا رہا لیکن کشمیر کا مسئلہ آج تک حل نہیں کرا سکا کیونکہ وہ مسئلہ حل کرانے میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں تھا۔
یہ وہ عوامل ہیں جو پاکستان کو امریکی بلاک سے نکل کر چینی بلاک میں شامل ہونے پر مجبور کر رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ پاکستان کے معاشی حالات ہیں جو چین سے شراکت داری کی صورت حل ہوتے دکھائی دیتے ہیں، سو پاکستان کو اقتصادی شراکت دار کے طور پر اپنی حیثیت کو مستحکم کرنا ہوگا اور اس کے لیے پاکستان کو اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا، ساتھ ساتھ قومی مقاصد کے گرد قائم سلامتی کے معاملات سے باہر نکلنا ہوگا اور ایسی پالیسیاں اپنانی ہوں گی جو اس کے محل وقوع کو واقعی ایک اثاثہ بنائیں۔
اقتصادی شراکت دار کے طور پر پاکستان کی اہمیت اس وقت تک واضح نہیں ہوگی جب تک افغانستان میں استحکام نہیں آ جاتا اور پاکستان، وسط ایشیا کے لیے پائپ لائنوں اور تجارت کا مرکز نہیں بن جاتا۔ معاشی ترجیحات اور خطے کے بدلتے حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہت زیادہ تبدیلی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
امریکہ ان تعلقات کو زیادہ وسعت دینا نہیں چاہتا۔ پاکستان کو چاہیے کہ افغانستان کے معاملے اور انسداد دہشتگردی کے معاملات کے ساتھ آغاز کرے اور اعتماد سازی کی کوشش کرے۔ اس کے بعد بات چیت کو بڑھاتے ہوئے متفقہ معاملات پر تعاون کرے اور اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ طویل مدت میں دیکھا جائے تو امریکا پاکستان کو مکمل طور چین پر منحصر نہیں چھوڑ سکتا اور یہی وہ معاملہ ہے جہاں دونوں کا تعاون ممکن ہے۔ پاکستان کو خود کو اتنا مضبوط بنانا ہوگا کہ امریکا اور چین دونوں کو ہی پاکستان کی ضرورت ہو۔ اس کے برعکس ایک کمزور پاکستان کو بھی امریکا اور چین دونوں کی ضرورت ہوگی لیکن ایسا پاکستان کسی ایک کے ساتھ ہی تعلقات رکھ سکتا ہے۔
چین کے دورہ سے واپسی کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنی معاشی ضروریات کو سامنے رکھ کر چین کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر چکا ہے، پاکستان اور چین کے اشتراک سے سی پیک تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جو دونوں ممالک کے معاشی مفادات کی عکاسی کرتا ہے، اسی طرح درجنوں چینی کمپنیاں پاکستان میں ترقیاتی کام کر رہی ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور چین کے معاشی تعلقات دو طرفہ مفادات پر قائم ہیں.
اس کے برعکس امریکی تعلقات نے پاکستان کو اس قدر فائدہ نہیں دیا ہے، پاکستان چین کی مدد سے خود کفالت کی راہ پر گامزن ہے جو ہر ملک کا خواب ہوتا ہے امریکہ نے گزشتہ ستر برسوں میں کوئی ایسا منصوبہ نہیں دیا ہے جو ہمیں خود کفیل بنانے کی عکاسی کرتا ہو۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے واضح طور پر چین کے ساتھ معاشی تعلقات کا اظہار امریکہ کو کسی صورت ہضم نہیں ہو گا، امریکہ پاکستان پر اپنا اثر رسوخ قائم رکھنے کیلئے ہر وہ حربہ اپنانے کی کوشش کرے گا جس سے وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے، ہمیں اس حوالے سے پیشگی تیاری کی ضرورت ہو گی۔