پنجاب سے حکومت گرانے کی تیاری مکمل
اپوزیشن جماعتیں وفاق سے پہلے پنجاب حکومت کو گرانا چاہتی ہیں کیونکہ وفاق کی نسبت پنجاب میں حکومت گرانا آسان ہے
قومی سیاست میں پنجاب کی خاص اہمیت ہے، پنجاب اپنا وزن جس پلڑے میں ڈال دے وہ پارٹی وفاق میں حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے، ایسے ہی پنجاب جس کے سر سے ہاتھ اٹھا لے وہ پارٹی مرکز میں حکومت قائم نہیں رکھ سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پنجاب تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے، دیکھا جائے تو یہ بات کافی حد تک زمینی حقائق سے مطابقت بھی رکھتی ہے، کیونکہ جن سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک پنجاب میں کم ہے وہ علاقائی سیاسی جماعتیں کہلاتی ہیں، کوئی جماعت بلوچستان تک محدود ہے، کوئی سندھ تک اور کوئی خیبر پختونخوا تک محدود ہے۔
پیپلزپارٹی ملک کی مقبول جماعت سمجھی جاتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو پنجاب سے ہی ووٹ ملے تھے مگر جب پنجاب پیپلز پارٹی کی ترجیح نہ رہا تو پارٹی سندھ تک محدود ہو گئی اور وفاق میں بھی اس کا کردار محدود ہو گیا، اس کے برعکس مسلم لیگ ن کو دیکھا جائے تو گزشتہ انتخابات میں دیگر صوبوں میں اس کا ووٹ بینک بھی کم ہوا ہے لیکن چونکہ پنجاب میں اس کا ووٹ بینک برقرار ہے تو مرکز میں اس کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔
اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کو رخصت کرنے کے لئے پنجاب سے آغاز کرنا چاہتی ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی وجہ پنجاب کی وہ اہمیت ہے جو اقتدار کے حصول یا حکومت گرانے میں درکار ہوتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ قومی اسمبلی میں حکومت گرانا آسان نہیں ہے، نمبر پورے نہ ہونے کے باعث اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی کا راستہ اختیار کرنے سے ہچکچا رہی ہیں کیونکہ اپوزیشن کی کئی جماعتیں اندرون خانہ اپنے مفادات کو پروان چڑھاتی ہیں جس کا مشاہدہ سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ناکامی کی صورت کیا جا چکا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے مزید کسی خفگی سے بچنے کیلئے لائحہ عمل تبدیل کیا ہے اور وفاق کی بجائے پنجاب سے آغاز کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں سمجھتی ہیں کہ حکومت کے خلاف ان کی تحریک پنجاب سے کامیاب ہو سکتی ہے، پنجاب میں کامیابی کے بعد اسے وفاق تک لے جایا جائے گا، اپوزیشن جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انہیں پنجاب سے ہی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی 165 نشستیں ہیں، پاکستان مسلم لیگ ق کی 10، آزاد امیدوار 5،پاکستان پیپلزپارٹی 7 ، پاکستان راہ حق کی ایک نشست ہے ۔ جو مجموعی طور پر 188نشستیں بنتی ہیں، اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کی مجموعی نشستیں 183ہیں، ان اعداد و شمار کے مطابق حکومت کے پاس پانچ نشستیں کم ہیں، ایسے حالات میں آزاد اراکین اور مسلم لیگ ق کا فیصلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے یہ اپنا وزن جس پارٹی کے حق میں ڈال دیں گے پنجاب میں اس پارٹی کی پوزیشن مستحکم ہو جائے گی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہباز شریف اور زردای کی ملاقات میں پنجاب اسمبلی کے آزاد اراکین نے اپوزیشن کی حمایت کا یقین دلایا ہے، اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ ق کو بھی اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہیں اس مقصد کیلئے آصف علی زرداری چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات بھی کر چکے ہیں جس میں بظاہر ق لیگ نے انکار کیا ہے لیکن یہ طے ہے کہ اگر ق لیگ حکومت کی حمایت برقرار رکھتی ہے تو اس کی بھاری قیمت وصول کرے گی کیا عمران خان اپنے اصولوں کو توڑ کر ق لیگ کی ڈیمانڈز پوری کریں گے، یہ بہت اہم ہے۔
مسلم لیگ ق اگر تحریک انصاف کی حمایت برقرار رکھتی ہے تب بھی اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پوری کوشش کریں گی کیونکہ وہ تحریک انصاف کے کئی اراکین کو اندرون خانہ اپنے ساتھ ملا چکی ہیں، اپوزیشن کے اس دعوے میں صداقت معلوم ہوتی ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کی طرح کئی تحریک انصاف کے کئی اراکین حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور وہ آئندہ انتخابات سے پہلے اپنا سیاسی کیرئیر بچانا چاہتے ہیں، تحریک انصاف کے اراکین جو اپنی ناراضی چھپائے ہوئے ہیں وہ اپوزیشن کیلئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں اگر اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکیں اور ایک بار پھر حکومت کے سر پر ہاتھ رکھ دیا گیا تو اپوزیشن جماعتیں فوری طور پر اجتماعی اسعفے دے دیں گی، اپوزیشن جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ جب قومی اور صوبائی اسمبلی سے سینکڑوں استعفے مشترکہ طور پر آ جائیں تو الیکشن کمیشن کیلئے پورے ملک میں انتخابات کرانا آسان نہیں ہو گا،متوقع بحران سے بچنے کیلئے الیکشن کمیشن کے پاس نئے انتخابات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ اپوزیشن جماعتیں اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں اور تحریک انصاف اپوزیشن اتحاد کا کیسے مقابلہ کرتی ہے، اس حوالے سے آئندہ چند ماہ بہت اہم ہیں۔