مصیبت جھیلنے سے دل مضبوط ہوتا ہے
مصنف و مؤرخ و ادیب احمد بن یوسف المصری اپنی شاہکار کتاب ’’المکافاۃ و حسن العقبیٰ‘‘ میں کہتے ہیں۔ انسان یہ جانتا ہے کہ شدت و غم کے بادل چھٹ جائیں گے صبح طلوع ہو گی اور دن نکلے گا۔ لیکن حادثات کے وقت انسانی طبیعت میں شکستگی طاری ہو جاتی ہے۔
اگر دوا نہ کی جائے ، بیماری بڑھ جائے تو تکلیف میں شدت آئے کیونکہ شدائد کے وقت اگر نفس کی تجدید و تقویت نہ ہوگی تو اس پر قنوطیت اور یاس طاری ہو جائے گا اور اسے توڑ کر رکھ دے گا۔
جو لوگ مبتلائے مصیبت ہوئے اور صبر کیا اور صبر کا پھل انہیں حسن عاقبت سے ملا۔ اس پر غور کرنے سے نفس میں بہادری پیدا ہوتی ہے۔ برابر صبر اختیار کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ادب اور حسن ظن ہوتا ہے کہ ابتلاء کے آخر میں اللہ تعالیٰ بہترین بدلہ دے گا۔ کتاب کے آخر میں انہوں نے لکھا ’’بزرجمہر کا کہنا ہے کہ بخشش و عطا سے پہلے شدائد ایسے ہی ہیں جیسے کھانے سے پہلے بھوک کہ بھوک کے احساس سے کھانا لذیذ ہو جاتا ہے۔‘‘
افلاطون نے کہا ہے:’’شدائدجتنا عیش و نعمتوں میں کمی کر دیتے ہیں اتنا ہی نفس کی اصلاح بھی کر دیتے ہیں۔‘‘ اس نے یہ بھی کہا کہ مصائب و شدائد نے جو دوست تمہیں دیا ہے اس کی حفاظت اور قدر کرو اور نعت و راحت نے جو دوست دیے ہیں انہیں بھول جاؤ۔
اس کا یہ بھی قول ہے کہ تعیش رات کی مانند ہے جس میں تم جو کرتے ہوئے یا لیتے ہو اس پر غور نہیں کر سکتے۔ شدت دن کی مثل ہے جس میں تم اپنی اور غیروں کی کوششوں کو دیکھ سکتے ہو، اردشیر کہتا ہے: ’’شدت ایسا سرمہ ہے جس سے تم وہ دیکھ سکتے ہو جو نعمت سے نہیں دیکھ سکتے‘‘۔ اس نے یہ بھی کہا کہ مصیبت جھیلنے والے کا دل مضبوط ہو اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے جو مالک اور رازق ہے۔
جب آدمی اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف کر لے تو اسے معلوم ہوگا کہ جو بھی ابتلا ہے اس پر اس کو ثواب ملے گا ، وہ کسی گناہ کا کفارہ ہوگا۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر اور مستقل فائدے بھی ملیں گے۔
برعکس کے خدا سے تعلق کم رہا اور مخلوق سے زیادہ تو آفتیں بھی بڑھیں گی، تصنع میں بھی اضافہ ہو گا ، وہ شدائد اور بلائیں آپڑیں گی جو ختم ہونے کا نام نہ لیں گی اور وہ اندیشے لاحق ہوں گے جن سے بچنا مشکل ہوگا۔
ایسی حالت میں تو بس بندہ اور اس کے رب کے مابین سرگوشیاں ہی کام آ سکتی ہیں کیونکہ رب تعالیٰ ہے بھیدوں کو جانتا ہے اور بصیرت عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بجائے بندوں سے زیادہ تعلق رکھا جائے تو اس میں پریشانیاں بڑھیں گی فائدہ نہیں ہوگا۔
مایوسی کے وقت اللہ کی جانب سے ایک روحانی وقلبی سکون کا جھونکا آتا ہے جو بندوں میں سے جسے وہ چاہے اسے نصیب ہوتا ہے۔ فراخی لانے اور معاملہ کو آسان کرنے کے لیے اللہ سے ہی رجوع کرنا چاہیے۔ وہی بہترین مرجع ہے۔ ہمارے لیے وہی کافی ہے‘ وہ بہترین کارساز ہے۔
تنوخی کی کتاب ’الفرج بعد الشدۃ ‘ کے مطالعے سے تین فوائد حاصل ہوئے: ایک اس بات کا یقین تکلیف کے بعد فراخی ہونا سنت الٰہی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جیسے رات کے بعد صبح کا آنا یقینی ہے۔ دوسرے‘ مصائب زیادہ تر بندے کے دین و دنیا میں فائدوں کا باعث ہوتے ہیں جب کہ راحتیں برعکس ہوتی ہیں۔ تیسری بات‘ نقصان کو دفع کرنے والا اور فائدہ پہنچانے والے حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہے ۔ جو پریشانی ہمیں لاحق ہوئی ہے وہ چوک نہیں سکتی اور جو چوک گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی تھی۔