بھارت سماجی بحران کے دہانے پر
یہ8جنوری کی دوپہر کا واقعہ ہے جب بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے علاقے او ڈی پی کے ای ایس کالج کی ایک 19سالہ مسلم طالبہ مسکان جو بی کام سیکنڈ ایئر میں زیر تعلیم ہے اپنی اسائنمنٹ جمع کرانے کیلئے کالج پہنچی ۔جونہی وہ گیٹ کے سامنے موجود پارکنگ میں اپنا سکوٹر کھڑا کر کے بلڈنگ کی طرف بڑھنے لگی تو پیچھے سے اچانک درجنوں افراد کا ایک جتھانمودار ہوا جو جے شری رام کے نعرے لگاتا ہواسکی طرف بڑھ رہا تھا ۔
ہجوم سے مسلسل آوازیں آ رہی تھیں کہ پہلے برقع اور نقاب اتارو ورنہ ہم کالج میں نہیں گھسنے دیں گے۔انہوں نے گلے میں زعفرانی شالیں ڈالی ہوئی تھیں لیکن لڑکی کے پاؤں ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں ڈگمگائے بلکہ وہ بلا خوف وخطر مردانہ وار آگے بڑھتی رہی۔جب ہجوم اسکے مد مقابل آگیا تو اس نے وہاں موجود رپورٹرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کیا ہمیں حجاب پہننے کا حق حاصل نہیں ۔
مسکان نے ہجوم کی طرف ہاتھ لہراتے ہوئے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا اور مسلسل نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے تیزی سے کالج کی عمارت میں داخل ہو گئی اور بزدل ہجوم دیکھتا رہ گیا۔حالانکہ اس سے پہلے چار لڑکیاں حجاب میں داخل ہوئیں جن کو ہجوم نے اسی طرح تنگ اور خوفزدہ کیا لیکن وہ ہمت ہار بیٹھیں اور ایک کمرے میں جا کر رونے لگ گئیں لیکن مسکان نے ڈرنے کی بجائے ہجوم کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور تاریخ میں جرات و بہادری کی داستان رقم کر دی۔
کچھ دیر بعد آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر نے اس تمام منظر کی دیڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دی اور یہ ویڈیو چند منٹوں میں پاکستان سے لے کر نہ صرف عرب ممالک بلکہ پوری دنیا میں پھیل گئی اور فوراً اس کے حق میں میسیج اور ٹوئیٹس آنا شروع ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مسکان پورے عالم اسلام کی ہیرو بن گئی ۔
پاکستان کی صفِ اول کی اداکاراؤں نے بھی اسے شیرنی کا لقب دے دیا۔دنیا کی تمام نامور شخصیات نے نہ صرف اس کی حمایت میں ٹویٹ کیے بلکہ اسے مزاحمت کی علامت قرار دے دیا۔جہاں اس لڑکی کی پوری دنیا میں حمایت بڑھی وہاں مودی حکومت کی ساکھ دھڑام سے گر گئی اور اس کی نفرت میں اور اضافہ ہوا۔
اس واقعہ کے بعد بھارت کی اپوزیشن جماعتوں سے لے کر فلم انڈسٹری تک تمام لوگوں نے نہ صرف اس کی مذمت کی ہے بلکہ اسے مودی کی مسلم دشمنی سے تعبیر کیا ہے حتیٰ کہ نامور بالی وڈ اداکارہ پوجا بھٹ نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ کی طرح ایک عورت کو دھمکانے کیلئے جتھے کی ضرورت پڑی ہے۔
ایک 19سال کی لڑکی نے بھارت اور اس کی حکومت کو جتنا چند لمحوں میں بے نقاب کیا ہے اتنا کوئی اور نہیں کر سکا۔خود ہندو لڑکیاں کہہ رہی ہیں اس واقعہ نے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا ہے اور ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ۔پوری دنیا کے لوگ چلا اٹھے ہیں کہ سیکولر کہلائے جانے والے ملک بھارت میں ایک لڑکی کے محض حجاب پہننے پر ہجوم حملہ آور ہو جاتا ہے ۔
مسکان کی حمایت میں نہ صرف بھارتی مسلمان بلکہ ہندو بھی سراپا احتجاج ہیں جو جو مودی کی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو بھارت کیلئے خوفناک عمل قرار دیتے ہیں جس سے نہ صرف بھارت اور تقسیم ہو گا بلکہ باہمی عداوتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔بھارت کا آئین ایک سیکولر آئین ہے جس میں تمام اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے لیکن بد قسمتی سے جب سے مودی کی حکومت اقتدار میں آئی ہے اس کے دور میں اقلیتوں کے حقوق پامال ہوئے ہیں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک پوری دنیا میں آشکار ہوا ہے۔
مودی جب گجرات کا وزیراعلی تھا تو اس وقت بھی گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں نہ صرف ہزاروں مسلمان شہید ہوئے بلکہ ان کی املاک تک جلا دیں گئیں۔ ہندوتوا نظریے کی بنیاد پر اس کی جماعت بی جے پی کو ووٹ پڑے اور اس نے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔
15اگست2020ء کو مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینا بھی اس کے اسی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ بھارتی ریاست کرناٹک جہاں نہ صرف بی جے پی کی حکومت قائم ہے بلکہ اسے بی جے پی کی لیبارٹری کہا جاتا ہے یہاں مسلم دشمنی عروج پر ہے۔ یہاں کئی ماہ پہلے حجاب کے خلاف مہم چلائی گئی ۔چنانچہ کرناٹک کے ایک کالج کی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ مسلمان خواتین کالج کی حدود میں تو حجاب کر سکتی ہیں لیکن کلاس کے دوران نہیں۔
اس فیصلے کے خلاف کالج کی پانچ طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ ان طالبات کا مؤقف ہے کہ کسی حکم کے ذریعے انہیں حجاب پہننے سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ یہ ان کا بنیادی حق ہے جو انڈیا کا آئین انہیں فراہم کرتا ہے۔حالانکہ اس مقدمے کی سماعت ابھی تک جاری ہے لیکن گذشتہ ماہ کرناٹک کی حکومت نے عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی حجاب پر پابندی عائد کرتے ہوئے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں صرف یونیفارم پہننے کا نیا حکم نامہ جاری کر دیا۔
اس نئے حکم نامے سے مسلم طالبات میں اضطراب اور بے چینی کی نئی لہر دوڑ گئی۔کرناٹک کے تمام سرکاری کالج اور یونیورسٹی کی انتظامیہ نے باحجاب طالبات کو داخل ہونے سے روک دیا۔ ایک اطلاع کے مطابق کرناٹک کی کئی مسلم طالبات کئی ہفتوں سے کلاسز میں نہیں جا سکیں۔چنانچہ اس حکم کے خلاف پورے بھارت میں مسلم طالبات سڑکوں پر نکل آئی ہیں اور وہ حجاب میری شناخت کے بینر اٹھا کر احتجاج کر رہی ہیں۔
اب اس کے مقابلے میں ہندو طلباء و طالبات بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور وہ بھی اپنے گلے میں زعفرانی شالیں ڈالے ہوئے ہیں جو ہندو مذہب کا ایک خاص رنگ ہے جن کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ شالیں آر ایس ایس اور راشٹریہ سیوک جیسی کٹر ہندو تنظیمیں طلباء میں تقسیم کر رہی ہیں اور وہ بھگوان میری پہچان کے بینر لئے مسلمانوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جبکہ مودی کی حکومت اس تعصب کو اور ہوا دے رہی ہے جس کا ثبوت اس کے ایک وزیر نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ مسکان نے ہجوم کے سامنے اللہ اکبر کے نعرے لگا کر ہجوم کو اشتعال دلانے کی کوشش کی ہے اور اس واقعے کی وہ خود ذمہ دار ہے۔
وزیر موصوف کے بیان سے ہی صاف نظر آرہا ہے کہ مودی حکومت بھارت کو جس سمت میں لے کر جا رہی ہے وہ یقیناً تباہی و بربادی کا راستہ ہے اور بھارت جلد ہی کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔