عقیدہ ہمیں ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے

اللہ تعالیٰ نے ہمیں نور ایمان کی دولت سے نواز کر ہم پر بہت بڑا کرم کیا ہے، معذرت خواہانہ رویہ نہ اپنا کر عقیدے پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں کیونکہ عقیدہ ہمیں ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے

جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے ٹھکانے کا اعلان کر دیا ہے، کہ مشرک ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ کوئی مسلمان قرآن کریم کی آیات پڑھ کر اس کا ترجمہ کر دے تو سیکولر و لبرلز کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی ہے۔ غیر مسلم تو اس بات کو سننا ہی گوارہ نہیں کرتے اور مسلمانوں کو طعنہ دیتے ہیں جبکہ سیکولر طبقہ بھی غیر مسلموں کے غم میں ہلکان ہوا جا رہا ہے۔

اسلام پر تنقید تو کر نہیں سکتے ہیں لہذا مولوی پر اپنا غصہ نکال کر غیر مسلموں کو تاثر دیتے ہیں کہ انہوں نے خدمت اور وفاداری کا حق ادا کر دیا ہے۔ جب کوئی مسلمان قرآن کریم کی تعلیمات پیش کرتا ہے تو اس پر واویلا شروع ہو جاتا ہے حالانکہ مسلمانوں کو فکر ہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام انسان جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والے بن جائیں اسی لئے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں کہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں، اسی پیغام کو لے کو کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے۔ جنہوں نے انبیاء کرام کی بات مان لی وہ جنتی ہیں اور جو مرتے دم تک انکاری رہے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

بھارت کی معروف گلوکارہ کی وفات پر ہمارے یہاں ایک طبقے کو مسلسل غم کھائے جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹوں میں اس کیلئے جنت کے سرٹیفکیٹ جاری کئے جا رہے ہیں، ایک صاحب نے تو حد کر دی اور لکھا کہ ’’جنت کو لتا مبارک ہو‘‘ اگر کوئی مسلمان ایسے لوگوں کے سامنے قرآن کا حکم رکھ دے تو یہ فوراً سیخ پا ہو جاتے ہیں کہ کسی کیلئے جہنم کا فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں۔

حیرت اس بات پر ہے کہ غیر مسلم اپنی شناخت کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور اسی شناخت پر مر جاتے ہیں انہیں اپنے عقیدے سے متعلق کوئی افسوس نہیں ہوتا ہے مگر بظاہر کلمہ گو ان کے دفاع میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں، ان کے فاع میں معذرت خواہانہ رویہ اپنا رہے ہوتے ہیں، کوئی ذی شعور ان سے پوچھ سکتا ہے کہ جب خدا کا فیصلہ اٹل ہے تو آپ کسے خوش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ نادان نہیں جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نور ایمان کی دولت سے نواز کر ہم پر کتنا بڑا کرم کیا ہے۔ اسلام میں عقیدے پر بہت زور دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں سینکڑوں آیات میں عقیدے کا ذکر آیا ہے، ایسے ہی سینکڑوں آیات میں کافروں کے ٹھکانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

بات کسی ایک شخص کے جنت یا جہنم میں جانے کی نہیں ہے بلکہ بات اصول کی ہے جسے قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے، اب اگر کوئی شخص پورے قرآن کر مانتا ہے مگر ان آیات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے جن آیات میں کافروں کیلئے جہنم کا ذکر آیا ہے تو ایسے شخص کو اپنے ایمان کی سلامتی کیلئے فوری طور پر ان مفتیان کرام سے رابطہ کرنا چاہئے جن کی علمی حیثیت پر اسے اعتماد ہے۔

ایک مسلمان کیلئے عقیدہ سب سے اہم ہونا چاہئے اور یہ تعلیم ہمیں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہے۔ ایسے مواقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل کیا ہوتا تھا یہ جاننے کیلئے سورہ کافرون کا مطالعہ کیجئے۔ جب مکہ مکرمہ کے کچھ سرداروں نے، جن میں ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل وغیرہ شامل تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صلح کی یہ تجویز پیش کی کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کر لیا کریں تو دوسرے سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کر لیں گے۔ کچھ اور لوگوں نے اسی قسم کی کچھ اور تجویزیں بھی پیش کیں، جن کا خلاصہ یہی تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی نہ کسی طرح ان کافروں کے طریقے پر عبادت کے لئے آمادہ ہو جائیں تو آپس میں صلح ہو سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ کافرون میں دو ٹوک الفاظ میں واضح فرما دیا کہ کفر اور ایمان کے درمیان اس قسم کی کوئی مصالحت قابل قبول نہیں ہے جس سے حق اور باطل کا امتیاز ختم ہو جائے، اور دین برحق میں کفر یا شرک کی ملاوٹ کر دی جائے۔ ہاں اگر تم حق کو قبول نہیں کرتے تو تم اپنے دین پر عمل کرو جس کے نتائج خود بھگتوگے، اور میں اپنے دین پر عمل کروں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیرمسلموں سے کوئی ایسی مصالحت جائز نہیں ہے جس میں ان کے دین کے شعائر کو اختیار کرنا پڑے۔ البتہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے امن کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔

اسلام غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا درس دیتا ہے لیکن جب عقیدے کی بات آتی ہے تو مسلمانوں کو حکم ہے کہ کافر ناراض ہوتے ہیں تو ہو جائیں آپ اپنے عقیدے پر قائم رہیں۔ اسے یوں سمجھیں کہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب دو مسلمان آپس میں میں تو ایک دوسرے کو سلام کریں، سلام میں پہل کرنے والے کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے مگر غیر مسلموں کے بارے اسلام کی تعلیمات مختلف ہیں تو اس کی بنیادی وجہ بھی وہ عقیدہ ہے جسے ہم نے اختیار کیا ہے۔

غیر مسلم کو ابتداءً سلام کے ان الفاظ سے سلام کرنا جائز نہیں ہے جو اہلِ اسلام اور اہلِ جنت کا تحیہ ہے، یعنی مخاطب کو متعین کرکے اسے سلامتی کی دعا دینا اور السلام علیکم کہنا۔ البتہ اگر غیر مسلم سلام میں پہل کرے تو اسے سلام کا جواب دے دینا چاہیے، لیکن جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ پورا نہیں کہا جائے ، بلکہ صرف ’’وعلیک‘‘ کہنے پر اکتفا کیا جائے اور اگر غیر مسلم کو ابتداءً سلام کرنا پڑے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں اس کا حل بھی موجود ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلم حکمرانوں کو ’’والا نامے‘‘ ارسال فرمائے تھے ان کی ابتدا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اَلسَّلَامُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الہُدیٰ‘‘ کے الفاظ تحریر فرمائے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ عمومی احوال میں غیر مسلموں کو ابتدائً سلام نہ کیا جائے، ہاں اگر کسی موقع پر اس کی ضرورت ہو تو مخاطب کو متعین کیے بغیر عمومی الفاظ میں سلام کے الفاظ کہے جائیں جیسے ’’اَلسَّلَامُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الہُدیٰ‘‘ یعنی اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ لہٰذا ضرورت کے مواقع پر ابتدائً ان الفاظ میں سلام کرنے کی اجازت ہے لیکن الفاظ کا چناؤ دیکھئے کہ کسی کا نام لینے کی بجائے یہ کہا گیا کہ سلامتی اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔

اسی طرح کسی بھی کافر کو مسلمان سے اچھا کہنا درست نہیں کیوں کہ کافر ظاہری اخلاق کے اعتبار سے جتنا بھی اچھا ہو جائے اگر اس کے اندر ایمان کی دولت نہیں تو اس کے یہ اچھے اخلاق ایمان کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتے، بلکہ درحقیقت دنیاوی اور اخروی دونوں اعتبار سے ایسا شخص اخلاق سے عاری ہے اور اس کا اچھا برتاؤ صرف دکھلاوا اور بناوٹ ہے، کیوں کہ جو شخص اپنے خالق، مالک، رازق اور حقیقی محسن کو نہ پہچانے، اس کے وجود کا منکر ہو، اس کے ساتھ شریک ٹھہرائے وہ حق ناشناس اور احسان فراموش ہے، اور احسان فراموش یا حق ناشناس شخص بااخلاق نہیں ہو سکتا۔

اخروی اعتبار سے بھی اگر دیکھیں تو کوئی شخص جتنا بھی اچھے اخلاق والا ہوجائے، لیکن اگر ایمان کی دولت اس کے پاس نہ ہو تو آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا ، قرآنِ کریم میں جگہ جگہ اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ: جو لوگ کافر ہیں (یعنی) اہل کتاب اور مشرک وہ دوزخ کی آگ میں پڑیں گے (اور) ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہیں۔ (البینۃ)

جب کہ اس کے مقابلے میں اگر کسی کا دل ایمان کے نور سے منور ہو اگر چہ اس کے دل میں معمولی سی بھی ایمان کی چنگاری کیوں نہ ہو، لیکن آخرت میں یہی چنگاری کام آئے گی اور اسی کے بدولت ایمان والا ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی حاصل کرلے گا اور اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا۔ لہٰذا کسی بھی کافر کو کسی بھی مسلمان کے مقابلے میں اچھا کہنا صرف یہ کہ درست نہیں بلکہ اگر کوئی اس پر اصرار کرے تو خدا نخواستہ اس شخص کے ایمان کی دولت سے محروم ہونے کا بھی خطرہ ہے۔

ایک مقام پر فرمایا گیا کہ ’’کیا تمہیں ان لوگوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا اور پھر اپنی شامت اعمال کا مزہ چکھ لیا؟ اور آگے ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے اس انجام کے مستحق وہ اس لیے ہوئے کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے، مگر انہوں نے کہا ’’کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے؟‘‘اس طرح انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا، تب اللہ بھی ان سے بے پروا ہو گیا اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود۔‘‘(سورۃ الحشر)

مسلمانوں کے پیش نظر صرف یہ بات رہنی چاہئے کہ جوشخص خدا کی ذات پر ایمان نہیں رکھتا ہے اور سر عام خدا کی نشانیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے تو ایسا شخص بھلے علم و فن میں کس قدر آگے ہی کیوں نہ ہمیں اس کے اخروی معاملے پر خاموشی اختیار کرنی چاہئے، زیادہ قرآن وحدیث پڑھ کر سنا دیا جائے اس پر کوئی عمل کرتا یا نہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے، غیر مسلموں کی طرف داری یا حمایت کی کسی طور ضرورت نہیں ہے۔ عقیدے کے معاملے میں غیر مسلموں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ کافرون میں ہمیں بتا دیا ہے یہ ہمارے لئے راہ عمل ہے اور راہ نجات بھی۔ ہمیں اس راستے کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی ضرورت ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button