فقر و فاقہ میں اہل خانہ پر حضور ﷺ کو ترجیح
حضور اکرم ﷺ پر کئی دن بغیر کچھ کھائے گزر گئے۔ بھوک سے آپ کو تکلیف ہونے لگی۔ آپ ﷺ اپنی سب ازواج مطہرات کے گھر سے ہو آئے لیکن کہیں بھی کچھ نہ ملا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور دریافت فرمایا کہ بچی! تمہارے پاس کچھ ہے کہ میں کھا لوں؟
مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔ وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ حضور ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں! کچھ بھی نہیں ۔ اللہ کے نبی ﷺ وہاں سے نکلے ہی تھے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کہیں سے دو روٹیاں اور گوشت کا ٹکڑا لے کر حاضرِ خدمت ہوئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسے لے کر لگن میں رکھ لیا اور فرمانے لگیں: گو مجھے، میرے خاوند اور بچوں کو بھی بھوک ہے۔ لیکن ہم سب فاقہ کر لیں گے ، اور خدا تعالیٰ کی قسم! آج تو یہ رسول اللہ ﷺ کو ہی دوں گی۔ پھر حسن یا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا کہ آپ ﷺ کو بلا لائیں۔
حضور اکرم ﷺ راستے میں ہی تھے کہ لوٹ آئے۔ کہنے لگیں: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، خدا تعالیٰ نے کچھ بھجوایا ہے، جسے میں نے آپ (ﷺ) کے لیے چھپا کر رکھ دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پیاری بچی! لے آؤ۔ اب جو کونڈا کھولا تو دیکھتی ہیں کہ برتن روٹی اور گوشت سے بھرا ہوا ہے۔ دیکھ کر حیران ہو گئیں، لیکن فوراً سمجھ گئیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس میں برکت نازل ہو گئی ہے۔ اللہ کا شکر کیا، نبی خدا پر درود پڑھا اور آپ ﷺ کی خدمت میں لا کر پیش کر دیا۔
آپ ﷺ نے بھی اسے دیکھ کر خدا کی تعریف کی اور دریافت فرمایا کہ : بیٹی! یہ کہاں سے آیا ہے؟ جواب دیا کہ ابا جان! خدا تعالیٰ کے پاس سے ہے۔ وہ جسے چاہے بے حساب روزی دیتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اے پیاری بچی تجھے بھی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تمام عورتوں کی سردار (یعنی حضرت مریم رضی اللہ عنہا) جیسا کر دیا ہے۔
انہیں جب کبھی اللہ تعالیٰ کوئی چیز عطا فرماتا اور ان سے پوچھا جاتا تو یہی جواب دیا کرتی تھیں کہ خدا کے پاس سے ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ پھر آنحضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور آپ ﷺ نے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اور آپ ﷺ کی سب ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن اور اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا، پھر بھی اتنا ہی باقی رہا جتنا پہلے تھا، جو آس پاس کے پڑوسیوں کے ہاں بھیجا گیا۔ یہ تھی خیر کثیر اور برکت خدائے تعالیٰ کی طرف سے۔
اس واقعے سے ایک طرف حضور اکرم ﷺ کا بھوک کی شدت اور فاقہ برداشت کرنے کا سبق ملا۔ دوسری طرف نیک اور دیندار عورتوں کے لیے یہ سبق بھی ہے کہ جب کہیں سے اللہ تعالیٰ کی نعمت ملے اورکوئی پوچھے کہ کس نے دیا؟ تو جواب میں کہیں:
’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے‘ بے شک اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘