کشادگی کیلئے استقامت کی راہ اپنائیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام ؓ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ اللہ کے محترم و مکرم گھر کعبہ کا ذکر چل نکلا۔ عمرہ و احرام کی فضیلت زیر بحث آئی۔ حرم شریف کی زیار ت کے لیے اُن کے دل بے چین ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے سفرِ مکہ کے لیے تیاری کا حکم دیا۔ شق کو مہمیز ملی۔ آناً فاناً تیاریاں کی گئیں۔ آپ چودہ سو صحابۂ کرام کے جلو میں عمرے کا تلبیہ کہتے ہوئے روانہ ہوئے۔ مکہ کی پہاڑیاں دکھائی دیں تو رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی اچانک بیٹھ گئی۔ آپ نے اُسے اٹھا کر چلانے کی کوشش کی لیکن بے کار۔
لوگ کہنے لگے: ’’قصوا اڑ بیٹھی۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’قصوا اڑی نہیں ‘ نہ اس کی یہ عادت ہے۔ البتہ اسے ہاتھیوں کو روکنے والے نے روک دیا ہے۔‘‘ (ابرہہ کے ہاتھی مراد ہیں جنہیں اللہ نے کعبہ کی طرف آنے سے روک دیا تھا۔) پھر فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ وہ میرے سامنے کوئی ایسا لائحہ عمل رکھیں گے جس سے ان کا مقصود اللہ کی محرمات (محترم قرار دی ہوئی اشیاء) کی تعظیم ہو تو میں ان سے ضرور اتفاق کروں گا۔‘‘

یہ کہہ کر آپ نے ناقہ کو ڈانٹا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور ایک قریبی جگہ حدیبیہ میں پڑاؤ ڈالا۔ قریش کو آپ کی آمد کی اطلاع ہوئی تو اس کے سرکردہ افراد آپ کی طرف آئے تاکہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے باز رکھیں۔ آپ نے عمرہ کیے بغیر واپس جانے سے انکار کر دیا۔ قریش کے سفیر مذاکرات کی غرض سے آتے رہے اور ناکام لوٹتے رہے۔ آخر قریش نے سہیل بن عمرو کو بھیجا۔ اس نے نبی ﷺ سے ان شرائط پر صلح کا معاہدہ کر لیا کہ مسلمان مدینہ لوٹ جائیں اور آئندہ سال عمرے کے لیے آئیں۔ اس کام کے لیے انجام پانے کے بعد مسلمانوں اور قریش کے درمیان عام مصالحت کا معاہدہ لکھا گیا۔ سہیل بن عمرو نے یہ شرط پیش کی کہ مکہ سے جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ آئے ‘ واپس کر دیا جائے لیکن مدینے کے مسلمانوں میں سے جو مرتد ہو کر مکہ آ جائے وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔

مسلمانوں نے کہا: ’’سبحان اللہ! جو شخص مسلمان ہو کر ہمارے پاس آجائے اسے ہم کافروں کو واپس کر دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
ابھی اس شرط پر ردوقدح ہو رہی تھی کہ ایک نوجوان ننگے پاؤں بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے آیا اور آتے ہی پکارا : ’’اے اللہ کے رسولؐ!‘‘
سب نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ یہ سہیل بن عمرو کا لڑکا ابوجندلؓ تھا جو مسلمان ہو چکا تھا۔ اسے اس کے باپ نے قید میں ڈال رکھا تھا۔ اسلام لانے کی پاداش میں اس پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ اسے معلوم ہوا کہ مسلمان حدیبیہ میں ٹھہرے ہیں تو وہ کسی طرح جیل توڑ کر بھاگ نکلا اور بیڑیاں گھسیٹتا ہوا مسلمانوں کے پاس آیا۔ اس کے زخموں سے خون رس رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ آیا اور نبی ﷺ کے قدموں میںگر گیا۔ سہیل بن عمرو نے اسے دیکھا تو طیش میں آ گیا کہ یہ قید سے کیونکر نکل بھاگا۔ اس نے چیخ کر کہا: ’’اے محمدؐ! یہ رہا وہ پہلا شخص جس کے متعلق میں آپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اسے میرے حوالے کر دیا جائے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے انکار کرتے ہوئے کہا:
’’معاہدے کی تحریر ابھی فیصلہ کن مراحل میں داخل نہیں ہوئی۔‘‘
سہیل بن عمرو نے ڈھٹائی سے کہا: ’’ٹھیک ہے میں آپ سے مصالحت ہی نہیں کرتا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے مصلحانہ لہجے میں کہا:
’’اسے میری خاطر چھوڑ دیجئے۔‘‘
سہیل بن عمرو کا جواب نفی میں تھا: ’’نہیں‘ میں اسے چھوڑنے والا نہیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ کہا: ’’کیوں نہیں؟ اسے چھوڑ دیجئے۔‘‘
سہیل بن عمرو ٹس سے مس نہ ہوا: ’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
اس پر آپ ﷺ خاموش ہو گئے ۔ سہیل بن عمرو بجلی کی طرح ابوجندل ؓ کی طرف بڑھا اور اسے زنجیروں سے پکڑ کر باہر کو گھسیٹنے لگا۔ ابوجندل چیختا رہا‘ مسلمانوں کو پکارتا رہا:
’’مسلمانو! میں مسلمان ہو کر آیا ہوں لیکن مشرکین کو لوٹایا جا رہا ہوں۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ مجھ پر کس قدر ظلم ڈھائے گئے ہیں؟‘‘
وہ مدد کے لیے پکارتا رہا اور اسی حالت میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ مارے غم کے مسلمانوں کے کلیجے پگھلنے لگے۔ وہ ابوجندلؓ کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ ابوجندلؓ رب العالمین سے ایمان و یقین کی بڑھوتری اور دین پر ثابت قدمی کی دعا کرتا ہوا مکہ چلا گیا۔ مسلمان شدید غم و غصے کی حالت میں مدینہ لوٹ آئے۔ اب مکہ میں محبوس کمزور مسلمانوں پر ظلم و ستم میں شدت آ گئی ۔ قید خانوں میں دی جانے والی اذیتیں برداشت سے باہر ہو گئیں تو ابوجندلؓ نے ابوبصیر ؓ اور دیگر محبوس مسلمانوں سے مل کر قید سے فرار کا منصوبہ بنایا۔ ابوبصیرؓ فرار کی کوشش میں کامیاب رہے۔ وہ سیدھے مدینہ روانہ ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام کے ہمراہ مسجد ہی میں تشریف فرما تھے۔ ابھی انہوں نے دم نہیں لیا تھا کہ قریشِ مکہ کے دو آدمی مسجد میں داخل ہوئے اور پکار کر کہا: ’’اے محمدؐ! ابوبصیر ہمیں واپس کر دیجئے۔ اسی عہد کے مطابق جو آپ نے ہم سے کیا تھا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے ابو بصیرؓ سے کہہ دیا کہ وہ مدینے سے نکل جائیں۔ وہ دونوں آدمی ابو بصیرؓ کو لے کر چلتے بنے۔ مدینے سے ذرا دور اُن دونوں نے کھانا کھانے کے لیے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ ایک ابوبصیرؓ کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا قضائے حاجت کے لیے چلا گیا۔ ابوبصیرؓ کے پاس بیٹھے آدمی نے تلوار نکالی اور اسے لہراتے ہوئے کہا: ’’میں اپنی اس تلوار سے اوس و خزرج (انصار کے قبائل) میں صبح سے شام تک خونریزی کرتا رہوںگا۔‘‘
ابوبصیرؓ نے اس سے کہا:
’’واللہ! میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی یہ تلوار بہت عمدہ ہے۔‘‘
اس نے فوراً پرجوش انداز میں جواب دیا: ’’ہاں‘اللہ کی قسم! یہ واقعی عمدہ ہے۔ میں نے اسے کئی بار آزمایا ہے۔‘‘
ابوبصیرؓ نے کہا : ’’ذرا دکھانا تو۔‘‘
اس نے تلوار ابوبصیرؓ کو پکڑا دی۔ جیسے ہی تلوار ابوبصیرؓ کے ہاتھ میں آئی۔ انہوں نے پہلے تو اسے اوپر اٹھایا ، پھر نیچے کیا گویا اس کی دھار کا بغور معائنہ کر رہے ہیں۔ پھر اچانک ایک جھٹکے سے انہوں نے تلوار لہرا کر آدمی کی گردن پر چلا دی اور اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کا ساتھی جو قضائے حاجت کے لئے گیا تھا ، واپس آیا تو اپنے ساتھی کا سر قلم دیکھ کر بہت گھبرایا اور مدینے کی طرف دوڑ لگا دی۔ بھاگتا بھاگتا مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے آتے دیکھا تو فرمایا:
’’یہ خوفزدہ ہے۔‘‘
وہ آدمی آتے ہی چلایا: ’’واللہ! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے۔ میں بھی ضرور قتل کر دیا جاؤں گا۔‘‘
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ابوبصیر ؓبھی آن پہنچے ۔ اُن کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔ ہاتھ میں پکڑی تلوار خون سے لتھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا:
’’اے اللہ کے نبیؐ! اللہ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی۔ آپ نے مجھے لوٹا دیا اور اللہ نے مجھے اُن سے نجات دے دی۔ اب آپ مجھے اپنے ساتھ ملا لیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: ’’نہیں‘‘
اس پر ابوبصیر نے چلا کر کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! پھر آپ مجھے چند آدمی دے دیں‘ میں مکہ فتح کر آتا ہوں۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کو ان کی بہادری اچھی لگی لیکن آپ اُن کا مطالبہ پورا کرنے سے قاصر تھے کیونکہ آپ کے اور اہل مکہ کے درمیان صلح کا معاہدہ تھا۔ آپ نے ابوبصیرؓ کو نرمی سے ٹالنا چاہا کیونکہ حالات اچھے نہیں ‘ نہ سہی! طرزِ کلام تو اچھا ہو!
آپ نے فرمایا:
’’اس کی ماںکا ستیاناس ہو! اگر اسے کوئی مددگار مل گیا تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا دے گا۔‘‘
ان الفاظ میں گویا ابوبصیرؓ سے معذرت کا اشارہ تھا۔
ابوبصیرؓ مسجد کے دروازے پر کھڑے رسول اللہ ﷺ سے مدینے میں بسنے کی اجازت کے منتظر تھے۔ لیکن آپ عہد شکنی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ مدینے سے نکل جائیں۔ ابوبصیرؓ نے دل برا کیے بغیر سرِتسلیم خم کردیا۔ وہ مدینے سے نکل آئے اور حیران تھے کہ کہاں جائیں۔ مکہ میں اذیتیں اور قید وبند کی صعوبتیں تھیں۔ مدینہ میں عہد کی پاسداری تھی۔ ابوبصیرؓ بحیرۂ احمر کے ساحل کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنی رہائش کے لیے کھلے آسمان تلے ایک جگہ کا انتخاب کیا۔ یہاں اُن کا نہ کوئی ہمدرد تھا نہ ہم نشیں۔

مکہ میں محبوس مسلمانوں کو ابوبصیرہ رضی اللہ عنہ کی کارروائی کا پتا چلا تو انہیں محسوس ہوا کہ راہِ نجات کا دروازہ کھل گیا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ مدینہ کے مسلمان عہد کی پاسداری میں انہیں قبول کرنے سے گریزاں تھے اور مکہ میں مشرکین نے عذاب میں ڈال رکھا تھا۔ ابوجندل ؓ بھی قید سے فرار ہوکر ابوبصیرؓ سے آ ملے۔ وہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے۔ اب مکہ سے فرار ہونے والے مسلمانوں کا تانتا بندھ گیا۔ وہ یکے بعد دیگرے ابوبصیر ؓ سے آ کر ملتے رہے۔

ساحلِ سمندر پر قیام پذیر ان مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور انہیں ایک گونہ قوت کا احساس ہوا۔ قریش مکہ کی شامت آگئی۔ مکہ کا جو تجارتی قافلہ سمندر یا اس کے آس پاس سے گزرتا‘ یہ مٹھی بھر مسلمان اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے اور مال و متاع لوٹ لیتے۔ ابوبصیرؓ اور ان کے ساتھیوں کی ترکتازیاں بڑھیں تو قریش نے نبی ﷺ کے آگے ہاتھ جوڑے کہ خدارا انہیں اپنے پاس بلا لیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا آدمی بھیج کر انہیں مدینے بلا لیا۔ قاصد نے انہیں نبی ﷺ کا خط دیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ ابوبصیرؓ جو مرض الموت میں صاحبِ فراش تھے ‘ بار بار یہی کہتے:
’’میرا رب بہت بڑا اور بلند وبرتر ہے‘ جس کی مدد کرے اسے کون شکست دے سکتا ہے؟‘‘

اُن کے ساتھ خیمے میں آئے اور انہیں رسول اللہ ﷺ کا خط دکھایا کہ آپ ﷺ نے ہمیں مدینے میں رہنے کی اجازت دے دی ہے اور پردیس کے دن ختم ہو گئے ہیں۔ اُن کی مرادیں برآئی ہیں اور اللہ نے اُن کی سن لی ہے۔ ابوبصیرؓ نے خط لیا‘ چوم کر سینے سے لگایا اور کہا:
’’میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسولؐ ہیں۔‘‘ (بخاری‘ ابوداؤد)
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے سامنے اپنے جذبات کی قربانی دیں۔ دین اپنا شوق پورا کرنے کا نام نہیں‘ اطاعت بجا لانے کا نام ہے۔ آپ کی استقامت آپ کے لیے کشادگی کے راستے کھول دے گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button