زندگی کے آخری لمحات میں حزن و ملال نہ کریں

عمر کے آخری حصے میں اکثر لوگ شکوہ کناں رہتے ہیں کہ انہوں نے عمر بھر میں کچھ بھی نہیں کیا جیسی ترقی دوسروں نے کی ہے ویسی وہ نہ کر سکے اسی طرح دنیا میں نہ ملنے والی آسائشات پر روتے دکھائی دیں گے۔ یہ عادت ناشکری میں آتی ہے اس سے گریز کریں۔ اللہ تعالی نے جن نعمتوں سے آپ کو نوازا ہے ان نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کریں اور تسلی رکھیں کہ جو آپ کے مقدر میں تھا وہ آپ کو مل گیا ہے۔

ابوریحان البیرونی کو خاصی طویل عمر ملی کہ ۷۸ سال تک علوم کی تحصیل اور کتابوں کی تصنیف میں لگا رہا۔ نئے ابواب و آفاق وا کرتا‘ علوم کے دقیق اور عمیق مباحث کا احاطہ کرتا‘ اس کے ہاتھ سے قلم جدا نہ ہو پاتا‘ آنکھیں مطالعہ پر اور قلب فکر پرجما رہتا۔ ضروری کھانے پینے کے علاوہ جس سے زندگی بنی رہے ، سارے سال بس اس کا طریقہ یہی تھا کہ نئے نئے معلومات کی کھوج کرتا اور نئی نئی تحقیقات کرتا۔

فقیہ ابوالحسن علی بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں ابوالریحان سے ملنے کے لیے آیا۔ اس کا آخری وقت تھا‘ سینہ میں سانس پھڑپھڑا رہی تھی۔ نزع کا عالم تھا۔ اس وقت بھی اس نے کہا کہ میراث میں جدات فاسدہ کا حساب آپ نے مجھے بتایا تھا (یعنی ننھیال کی طرف سے) میں نے البیرونی پر شفقت کرتے ہوئے کہا: کیا اس حال میں بھی سوال و جواب؟

کہا ہاں بھائی! کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ دنیا کو اس حال میں چھوڑوں کہ مجھے اس مسئلہ کا علم ہو نہ یہ کہ میں اس سے لاعلم رہوں؟

میں نے مسئلہ دہرا دیا۔ اس نے یاد کر لیا اور جس کا مجھ سے وعدہ کیا تھا وہ مجھے بتا دیا۔ میں اس کے پاس سے نکلا ہی تھا کہ رونے چلانے کی آواز آئی!!یہ وہ بلند ہمتیں تھیں جو سخت حالات میں بھی راستہ بنا لیتی ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سکرات موت میں بھی جب کہ زخموں سے خون بہہ رہا تھا صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ پوچھ رہے تھے کہ نماز پوری کر لی ہے یا نہیں؟

’’احد‘‘ میں سعدؓ بن الربیع خون میں لت پت تھے لیکن آخری سانس میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلوم کر رہے تھے۔ یہ ثابت قدمی اور دل کے ایمان و یقین سے معمور ہونے کی مثالیں ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button