چین کے لیول تک پہنچنے کیلئے کیا کرنا ہو گا؟
وزیر اعظم خان اپنی ٹیم کے اہم ممبرز کے ساتھ اس وقت چین کے دورہ پر ہیں، وہ چین میں سرمائی اولمپکس کے انتظامات دیکھ کر دنگ رہ گئے اور زبان سے بے ساختہ کہہ اٹھے کہ ’’یہ لیول ہی اور ہے‘‘۔ وزیر اعظم عمران خان جیسے لیڈر کے شایان شان یہی تھا کہ وہ بہترین انتظامات پر چین کی تحسین کرتے، تاہم اہم یہ ہے کہ چین کے اس لیول تک پہنچنے میں کیا عوامل کار فرما تھے، چین نے ترقی کیلئے کون سا راستہ اختیار کیا کہ آج دنیا اس کی ترقی پر حیران ہے۔ چین نے پاکستان سے ایک سال بعد آزادی حاصل کی اور بینکنگ سمیت کئی معاملات میں چین پاکستان سے مدد لیتا رہا، چین کی قومی فضائی کمپنی ’’ایئر چائنہ‘‘ کے پائلٹوں کو پاکستانی پائلٹوں نے تربیت دی تھی کیونکہ اس وقت ہماری قومی ایئر لائی پی آئی اے پوری دنیا میں اپنی خاص پہچان رکھتی تھی۔
آج ترقی کی وجہ سے پوری دنیا چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کیلئے بہانے تلاش کرتی ہے مگر پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین ہمارا اچھا پڑوسی ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ہر طرح کی معاونت فراہم کر رہا ہے۔ ہم انہی سطور میں پہلے بھی تحریر کر چکے ہیں کہ ہمیں چین سے سیکھنے کی ضرورت ہے مگر بسیار دعوؤں کے ہم چین سے سیکھ نہیں رہے ہیں، مسلم لیگ ن کے دور میں چین کے اشتراک سے متعدد منصوبے شروع ہوئے تھے، جو کم مدت میں تکمیل کو پہنچے، سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان نے توانائی بحران پر چین کی مدد سے ہی قابو پایا ہے۔ پاک چائنہ اقتصادی راہداری چین کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جو پورے خطے کیلئے خوشحالی کی علامت سمجھا جا رہا ہے مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں چین کے دیگر منصوبوں کی طرح سی پیک بھی سست روی کا شکار ہوا ہے، یہ عوامل ہمیں ترقی کی راہ سے دور لے جانے والے ہیں ہمیں اس پر قانو پانا ہو گا۔
چین کو غربت سے پاک ملک قرار دیا جاتا ہے حالانکہ چین ڈیڑھ ارب آبادی کا حامل ملک ہے، اور یہ مراحل چین نے محض گزشتہ پانچ دہائیوں میں طے کئے ہیں، سوشلزم دنیا کا تیسرا معاشی نظام ہے جو اجتماعی معاشرے کے مفادات کو اہمیت دیتا ہے چین نے سوشلزم کو اپنایا جو اس کی ترقی ذریعہ بن گیا۔
چین نے سب سے پہلے ایسے انسانی سرمایہ کی تیاری پر توجہ دی جو چین کی ترقی میں دل و جان سے مخلص تھے۔ دوسرے مرحلے پر بڑھتی معاشی ضروریات اور وسائل کی کمی کو سامنے رکھ کر پالیسی تشکیل دی گئی۔ اس حوالے سے چین نے اپنی انڈسٹری اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا، ایگریکلچر ٹاؤن شپ اور اجتماعی گھریلو سسٹم کو ترجیحات میں شامل کیا، لوکل گورنمنٹ، معاشی دھڑوں اور ہاؤس ہولڈ کی اکائی قائم کی گئی، ٹاؤن شپ ویلج انٹرپرائزکے نظام کی مدد کی، لوکل گورنمنٹ کو اختیارات منتقل کئے تاکہ وہ اہداف کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے بروقت فیصلے کر سکیں۔
ریاستی سطح پر نظام قائم کرنے کے بعد چین نے غربت کے خاتمے پر توجہ دی، اس مقصد کیلئے عوام کو مالی مدد فراہم کرنے کی بجائے روزگار کے مواقع فراہم کئے گئے، غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنے کیلئے کثیر المقاصد اہداف کا تعین کیا گیا، دیہی آبادی کو انڈسٹری سے جوڑ کر معاشی سرگرمیوں کا جال بنایا گیا سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاست نے شہریوں کو آگے بڑھنے کے لئے وسائل مہیا کئے۔
چین نے ترقی کے حصول میں محض ایک راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ ہمہ جہت منصوبہ بندی کی گئی اور قلیل المدتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ طویل المدتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا، کہا جاتا ہے کہ چین نے آئندہ پچاس سالوں کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کی، تعجب خیز بات یہ ہے کہ چین کی پلاننگ خفیہ ہوتی ہے، ماہرین کی ٹیم اندرون خانہ پلاننگ کرتی رہتی ہے اور جب ہر لحاظ سے منصوبہ تیار ہو جاتا ہے تو اس پر باقاعدہ کام شروع کیا جاتا ہے۔
ہمیں اس حوالے سے چین سے سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ہاں بالعموم منصوبہ فضا میں ہوتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ لینے کیلئے اعلان کر کے تشہیری مہم عروج شروع کر دی جاتی ہے متعدد منصوبے تو صرف فائلوں تک محدود رہے جو شروع بھی نہ ہو سکے، آج ان منصوبوں کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔
چینی اقتصادی ماڈل کے نتائج پر غور کیا جائے تو کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ اصلاحات کی بدولت چین نے 770 ملین افراد کو بے روزگاری سے نکالا۔ 2018ء میں 16.8 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ محض 2 سال کے عرصے میں چین نے غربت کے مکمل خاتمے کا اعلان کر دیا۔ 1976ء میں چین کے جنگلات 10 فیصد تھے جو بڑھ کر 2018ء میں 22.66 فیصد تک پھیل گئے۔ یہ چین کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ 9 فیصد زرعی رقبے کے ساتھ دنیا کی 20 فیصد آبادی کی خوراک کا بندوبست کر رہا ہے۔
چین نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ ایک دن میں حاصل نہیں ہوا بلکہ چین قدم بہ قدم مرحلہ وار بھرپور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھا ہے۔ ہمارے ایک دوست کچھ عرصہ چین میں رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ چین میں بنجر زمینوں کو زرخیز بنانے کیلئے ایسی مشینری تیار کر لی گئی ہے جو پتھریلی زمین میں سے پھتر چن کر انہیں مٹی کی طرح پیس کر رکھ دیتی ہے اور زمین کو زراعت کیلئے ہموار بنا دیتی ہے اسی طرح وہاں پر زیادہ فصل کے حصول کیلئے بیج پر بہت زیادہ ریسرچ کی گئی ہے ایسے ایسے بیج تیار کر لئے گئے ہیں کہ ہمارا کسان جو ایک ایکٹر سے فصل کی پیداوار حاصل کرتا ہے چینی کاشتکار ایک کنال کے قطعہ ارضی سے اس سے کہیں زیادہ پیداوار حاصل کر لیتا ہے۔
چینی انڈسٹری وہاں کے مزدوروں کے مرہون منت ہے ریاست نے سرپرستی کی اور ایسا نظام بنا دیا ہے کہ سرمایہ خود بخود چین آ رہا ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے مزدور عرب و مغربی ممالک میں جاتے ہیں وہاں پر دن رات محنت کرتے ہیں اگر چین کی طرح وہ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی پر محنت کرتے تو کامیابی یقینی تھی مگر ریاست کی طرف سے ایسا ماحول فراہم نہیں کیا گیا ہے جو سرمایہ کاری کیلئے مفید ہوتا ہے، ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ان عوامل پر غور کرنا ہو گا۔