سردار مسعود کی نامزدگی پر بھارت کی بوکھلاہٹ

سردار مسعود احمد خان جو آج کل آزاد کشمیر کے صدر ہیں لیکن ان کے عہدے کی میعاد اس سال ختم ہو رہی ہے اس لئے حکومت نے ان کے بہترین سفارتی تجربے سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے انہیں امریکہ میں بطور پاکستانی سفیر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ سال نومبر میں پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ان کی دستاویزات ارسال کی گئیں جن کا تاحال جواب موصول نہیں ہوا حالانکہ قانونی طور پر ایک ماہ کے اندر جواب دینا ہوتا ہے مگر تین ماہ ہونے کو ہیں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بالکل چپ سادھ رکھی ہے۔

خارجی معاملات پر نظر رکھنے والے بعض ذرائع اسے امریکہ کی پاکستان سے سرد مہری اختیار کرنے سے تعبیر کر رہے ہیں جس کی بڑی وجہ امریکہ کے مقابلے میں و ہ بڑھتا ہوا پاکستان چین تعلق کو قرار دے رہے ہیں جسے سی پیک نے اور بھی مستحکم کر دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن جن کو اپنا عہدہ سنبھالے ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت چلا ہے مگر انہوں نے ابھی تک کسی بھی پاکستانی اعلیٰ عہدیدار سے کوئی رابطہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حالانکہ گزشتہ سال پاکستان نے امریکی افواج کو افغانستان سے نکلنے میں جس طرح امریکہ کی مدد کی اس کی ساری دنیا معترف ہے خود امریکہ نے بھی کئی بار اس کا برملا اظہار کیا لیکن چونکہ امریکی تاریخ پاکستان سے بے وفائیوں سے بھری پڑی ہے اور امریکہ نے وہی روایت اب بھی برقرار رکھی ہے ۔جبکہ بعض تجزیہ کار اسے امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

ان کا مؤقف ہے کہ چونکہ چین سے مقابلے کیلئے آج کل امریکہ کو بھارت کی اشد ضرورت ہے اس لئے امریکہ بھارت پر اپنی تمام مہربانیوں اور نوازشات کی بھر پور بارش کر رہا ہے اور اسے دھڑا دھڑ جدید ٹیکنالوجی اور اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھارت اس پر کافی اثر انداز ہے اور سردار مسعود خان کی تقرری کی تاخیر میں بھی بھارت کا ہاتھ ہے جو امریکہ کو مسلسل یہ پٹیاں پڑھانے میں مصروف ہے کہ وہ سفارتکار نہیں بلکہ ایک کشمیری صدر کے ساتھ ساتھ کشمیری مجاہد ہے جس کے سفیر بننے سے نہ صرف پاک بھارت تعلقات اور بگڑ جائیں گے بلکہ تنازعات اور بھی شدت اختیار کر جائیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں کانگرس کے ایک رکن نے امریکہ کی طرف سے سردار مسعود خان کی تقرری کے التواء کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ ان کو کشمیری جہادی کا خطاب بھی دے ڈالا۔ بھارت جس نے آج تک امریکہ میں کسی پاکستانی سفیر کی تقرری میں اتنے روڑے نہیں اٹکائے جتنے وہ سردار مسعود خان کی تقرری میں اٹکا رہا ہے۔ اس کے اس پراپیگنڈے کے جواب میں گذشتہ دنوں پاکستانی دفتر خاجہ کے ترجمان کو جواب جاری کرنا پڑا کہ سردار مسعود کے بارے میں بھارتی پراپیگنڈا بے بنیاد ہے جس کا مقصد سیکنڈلز پر مبنی دعوے اور حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنا ہے تاکہ کشمیر کا سلگتا ہوا مسئلہ دب جائے۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کے طور پر نامزدگی کا معاملہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

جس طرح بھارتی حکومت اور اسکا ذرائع ابلاغ سردار مسعود خان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کر رہا ہے اس نے ہم اکستانیوں کو انکے بارے میں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان میں آخر کونسی صلاحیت موجود ہے جس سے گھبرا کر پورا بھارت انکی مخالفت پر اتر آیا ہے۔اس سلسلے میں ہمیں ان کی تاریخ اور خدمات کا مختصر جائزہ لینا ہو گا۔

سردار مسعود احمد خان ریاست آزاد جموں و کشمیر کے معرض وجود میں آنے کے تقریباً تین سال بعد 1951میں آزاد کشمیر کے علاقے راولا کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار محمد ابراہیم خان کے خاندان سے ہے۔انہوں نے 1980میں وزارت خاجہ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان بنے۔ راولا کوٹ سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ نستعلیق اور شستہ لہجے میں نہ صرف اردو بلکہ انگریزی بھی روانی سے بولتے ہیں۔

اگرچہ کم بولتے ہیں مگر بات پتے کی کرتے ہیں۔کشمیر سے تعلق ہونے کی وجہ سے سے بھارت کے خلاف ان کا لہجہ ہمیشہ تلخ ہی رہا۔ وہ بھارتی مظالم کو کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ڈنکے کی چوٹ پر آشکار کرتے رہے ہیں۔11اکتوبر 2012ء کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب مقرر کیا جسے وہ 7فروری 2015ء تک نبھاتے رہے۔انہوں نے چین میں بھی بطور سفیر اپنے فرائض سرانجام دیئے۔

سردار مسعود احمد خان 25اگست2016ء کو نواز شریف کی مدد سے آزاد کشمیر کے 23ویں صدر منتخب ہوئے۔آزاد کشمیر کا صدر بنتے ہی انہوں نے اپنی توپوں کا رخ بھارت کی طرف موڑ دیا۔انہوں نے نہ صرف دنیا میں بھارتی مظالم کو اجاگر کیا بلکہ بھارتی جنتا پارٹی اور راشٹریہ سیوک کے کئی جھوٹ بے نقاب کئے۔ ان کے آنے سے مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جلا ملی ۔جب بھارت نے اپنے آئین و قانون کو روندتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاست کا حصہ بنا ڈالا تو اس موقع پر سردار مسعود نے عالمی سطح پر بھارت کے خلاف مہم چلائی اور بھارت کے ناجائز قبضے کو پوری دنیا میں بے نقاب کیا۔

اس کے بعد جب بھاتی وزیراعظم، وزیر دفاع اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر نے پاکستان اور آزاد کشمیر آکر حملے کی دھمکی دی تو انہوں نے پاکستانی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم ہوشیار اور بیدار ہوں اور خطرات کا مقابلہ کرنے کی تیاری کریں۔انہوں نے ترکی اور سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں مسئلہ کشمیر کو اٹھایا۔ انہیںگذشتہ سال 20نومبر کو ترکی میں منعقدہ دو روزہ عالمی کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی بلایا گیا جہاں انہوں نے نہ صرف دنیا کو بھارتی مظالم سے آگاہ کیا بلکہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی حمایت کرنے پر ترکی صدر کا بھی شکریہ ادا کیا۔

اپنی صدارت کے دور میں انہوں نے یورپ کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے دنیا کو متنبہ کیا کہ تنازعہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے مابین ایٹمی جنگ محض اندیشہ اور خدشہ نہیں بلکہ ایک نظر آنے والی حقیقت ہے۔ دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کو خارجی اور سفارتی محاذ پر اجاگر کرنا ان کا جرم بن گیا ہے یہی وجہ ہے بھارت اب ان کی امریکہ میں بطور سفیر نامزدگی کی نہ صرف شدید مخالفت کر رہا ہے بلکہ وہ ان کو ایک دہشت گر کے روپ میں پیش کر رہا ہے لیکن بھارت کی سب چالیں اور پراپیگنڈے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے کیونکہ حضرت علی کا قول ہے کہ کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت سدا قائم نہیں رہ سکتی۔جب تک کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ رہے گا تو اس وقت تک اس کے خلاف آزادی کی جدوجہد بھی جاری رہے گی اور مقبول بٹ،اشرف صحرائی،بشارت عباسی اور برہان وانی جیسے لوگوں کی شہادتوں کا سفر بھی جاری رہے گا او سردارر مسعود جیسے سفارتکاروں کی جدوجہد کا عمل بھی جاری رہے گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button