دنیا کشمیریوں کی حالت سے بے خبر کیوں؟

کشمیرکی آزادی سے توہم کب کے دستبردارہوچکے ہیں ۔عرصہ ہواہے کہ کشمیرکاسفیربھی خاموش ہے ،جبکہ وکیل پہلے ہی ہاتھ کھڑے کرچکاہے ایسے میں کشمیرکی آزادی کی کوئی امیدباقی ہے؟ کشمیرپرتقریرسے جوسفرشروع ہواتھا وہ سری نگرہائی وے کی تختی پرختم ہوچکابازوئوں پرکالی پٹیاں ،ایک منٹ کی خاموشی ،جمعہ جمعہ احتجاج بھی ماضی کاحصہ بن چکااب ہم صرف بھارتی اقدامات(مظالم) کے جواب میں ہی جاگتے ہیں وہ بھی خانہ پری کے لیے ۔

کشمیرسے پسپائی کایہ عالم ہے کہ ایک وقت تھا کہ بھارت دہائی دے رہاہوتاتھا اورآج یہ حالت ہے کہ اب ہم انتظارکررہے ہوتے ہیں کہ کب کشمیریوں پربھارتی فوج کے مظالم کی کوئی ویڈیووائرل ہوتوہمیں بھی کشمیرپربات کرنے کاموقع ملے اورہم دنیاکوبتاسکیں کہ یہ دیکھوظلم ہورہاہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں چندنوجوان اگرپاکستان کاجھنڈالہرادیں توہم کہتے ہیں کہ دیکھو لوگو! ‘شوق شہادت ابھی زندہ ہے۔کشمیریوں کودبایانہیں جاسکتا۔کبھی نقاب پوش کشمیری لڑکیاں پاکستانی ترانہ گا دیتی ہیں توان کی ویڈدیکھ کر ہم بھی خوش ہو لیتے ہیںکہ دیکھو بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہوتے ہوئے بھی ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔سرکاری ٹی وی پر کچھ دہائی قبل سارا سال کشمیر کے حوالے سے کوئی نہ کوئی نشریاتی گھنٹہ مقرر ہوتا تھا، پھر یہ گھنٹہ سمٹ کر ایک ترانے تک آیا، یہاں تک کہ پانچ اگست 2019کے بعدیہ ترانے بھی شاذ و نادر ہی سنائی دے رہے ہیں ۔

یہ بھارت کی مہربانی ہے کہ اس نے پانچ اگست کااقدام کرکے ہمیں کشمیریوں کے ساتھ ایک اوردن بنانے کاموقع دیاہے ورنہ اس سے پہلے ہم 27اکتوبرکوکشمیرپربھارتی قبضے کی برسی بناکرولولے گرم رکھتے تھے ،26جنوری کوبھارتی یوم جمہوریہ کویوم سیاہ کے طورپر مناکربھارت کے خلا ف احتجاج کی آخری حجت بھی تمام کرتے تھے۔ ہر سال 13 جولائی کو شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یوم شہدا ء بناکرشہیدوں کے مشن کی تکمیل کاعزم کرتے تھے ،جبکہ پانچ فروری کویوم یکجہتی کشمیربناکرمظلوموں کے ساتھ کھڑاہونے کاحق اداکرتے تھے اوراب بھی یہ سب کچھ کررہے ہیں ہمارا عزم ہے کہ کشمیرکی آزادی تک یہ سب کرتے رہیں گے۔

ایسا نہیں کہ ہم کشمیر کو بھول گئے ہیں ، کشمیر ہمیں یاد ہے لیکن خاص دنوں کے لیے، سوال یہ ہے کہ کشمیریوں سے وفا ہم نے نہیں نبھائی، کشمیر کے لیے ہماری کھوکھلی جدوجہد اس شک میں ڈال دیتی ہے کہ شاید یہ مسئلہ حل کرانا مقصود ہی نہیں، پاکستان بھارت کے اس ہاون دستے میں جو کوئی کچلا جارہا ہے تو وہ کشمیری ہیں.وہ بدستورکچلے جارہے ہیں مگران کے جذبہ حریت کوسردنہیں کیاجاسکاہے ہم انتظارمیں ہیں کہ ان کاجذبہ حریت کب سردپڑتاہے ۔البتہ ہم پہلے ہی ٹھنڈے پڑگئے ہیں شایدمقصودبھی یہی تھا۔

کشمیرکی آئینی حیثیت پرانڈیانے ڈاکہ ڈالا،کشمیرکی آئینی حیثیت تبدیل کردی مگرہم نے اپناطریقہ کانہیں بدلا،ہم آج بھی خاص موقعوں پرقومی اسمبلی سے کشمیرکے حق میں ایک عددقرارادمنظورکرکے چپ سادھ لیتے ہیں ،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کی ایک آدھ تقریرپرشادیانے بجاتے ہیں کسی عالمی رہنماء کے کشمیرکے حق میں ایک آدھ بیان پرآسمان سرپراٹھالیتے ہیں ،دشمن کے دانت کھٹے کرنے کابیان دے کراپناحق اداکرتے ہیں ۔البتہ بلکہ ہم نے پاکستان کے نئے نقشے میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کو اپنا حصہ ظاہر کرکے بھارت کو ایک کڑا پیغام ضرور دیا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اب نہ کسی ولولہ انگیز ترانے میں وہ سواد رہا نہ کشمیر کی جلتی وادی جیسے نام کے ڈرامے کوئی تشفی دے سکتے ہیں، نیویارک کے ٹائم اسکوائر سے لے کر لندن کے ٹریفلگر اسکوائر تک لگے فری کشمیر کے بینر بھی بس خانہ پری لگتے ہیں۔آخر کب تک سروں کے سہارے بھارت کو یہ کہتے رہیں گے کہ جا جا نکل جا؟ کیا واقعی لائن آف کنٹرول پر اظہار یکجہتی کے دورے ‘،پھولوں اورمٹھائی کے ٹوکروں کے تبادلے بھارتی جبر میں پسے کشمیریوں کے لیے کوئی معنی رکھتے ہیں؟

یادآیاکہ کشمیرکی آزادی کے لیے ایک آدھ کشمیرکمیٹی بھی ہواکرتی تھی اس کاایک آدھ چیئرمین بھی ہوتا ہے مگرجب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے وہ چیئرمین منظرسے غائب ہے چندماہ قبل چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی فرانس میں برسرپیکارنظرآئے تھے جہاں انہوں نے ایک صحافی کو اس وجہ سے ننگی گالیاں اور کھلی دھمکیاں دیں کہ صحافی یونس خان نے چیئرمین کشمیر کمیٹی سے سوال کیا تھا کہ انہوں نے دورہ فرانس میں کشمیر کا مقدمہ کس کے سامنے پیش کیا تھا؟شہریار آفریدی نے سفارتی عملے اور دوستوں سے کہا کہ اگر آپ نے اس صحافی کو رگڑا نہ دیا تو میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔

بھارت ہرگزرتے دن کے ساتھ کشمیرپراپنے قبضے کومضبوط کررہاہے سیز فائر لائن پر اپنی عسکری پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہا ہے۔ ہندوستان لاکھوں ہندوستانیوں کو کشمیر میں آباد کرکے کشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑنے کے ساتھ ساتھ نئی حلقہ بندیوں کے ذریعے کشمیر کی پارلیمانی حیثیت کو بھی تبدیل کر رہا ہے۔مگرہمارے وزیرخارجہ بہت مصروف ہیں انہیں بیرونی دوروں سے فرصت ملے گی توکشمیرپربات کریں گے ؟دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ بھی ختم ہوگئی امریکہ اوراس کے اتحادی افغانستان سے رخصت ہوچکے ہم اس جنگ کاایندھن بنے مگرکشمیر کے معاملے پر ہم کوئی نتیجہ خیز عالمی دبا ئونہیں بنا سکے۔ بلکہ کشمیرکے معاملے پرہم اسلامی ممالک کوبھی ہمنوانہیں بناسکے ۔

معروف کاروباری شخصیت میاں محمد منشا نے حکومت پاکستان کو بھارت سے تعلقات ٹھیک کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہاہے کہ مستقل دشمنی کبھی نہیں ہوتی ہے، دنیا نے 2 بڑی جنگیں لڑیں اور بالآخر امن کے راستے پر آگئیں۔ ہمیں بھی بھارت سے تعلقات ٹھیک کرکے تجارت پر کام کرنا چاہیے، انہیں علم ہے بھارت سے پس پردہ بات چل رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو غربت کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر معاملات ٹھیک ہوجائیں تو مودی کو پاکستان کا دورہ کرنے میں ایک مہینہ نہیں لگے گا۔

میاں محمد منشاء کا مشورہ اپنی جگہ ٹھیک ہے مگرسوال یہ ہے کہ ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات خراب کب ہیں ،ہم یکطرفہ طورپربھارت کے لیے بچھے جارہے ہیں فیتھ ٹورازم پروگرام تحت بھارت نے ہمارے سیاحوں کوویزے جاری نہیں کیے جبکہ دوسری طرف بھارت اور خلیجی ممالک کے 170ہندو یاتری پاکستان کی سیر کرکے حال ہی واپس گئے ہیں ،ہم نے انڈیاکے لیے تمام راہداریاں کھول دی ہیں چاہیے تجارتی راہداری ہو،فضائی راہداری ہویاکوئی مذہبی راہداری ہو۔لیکن دوسری طرف سے محبت بھراجواب موصول نہیں ہورہاہے کل کی خبرہے کہ انڈیانے اجمیرشریف کے لیے پاکستانی زائرین کوویزنے دینے سے انکارکردیاہے اب اس یک طرفہ محبت کاکیاکیاجائے ؟
میاں منشاء نے کہاہے کہ ہے بھارت سے پس پردہ بات چل رہی ہے توسوال یہ ہے کہ بھارت سے پس پردہ کیابات چل رہی ہے، کون کررہاہے ؟کیاکشمیران مذاکرات میں شامل ہے ؟ کیوں کہ خبریں یہ ہیں کہ نئی سلامتی پالیسی میں بھارت کو سوسال تک جنگ نہ کرنے کی پیشکش کی گئی ہے؟

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button