سماج کی بہتری کا آغاز کہاں سے ہو؟

سماج افراد کے مجموعے کا نام ہے اور افراد فرد سے بنتے ہیں یوں فرد کی اصلاح بہت اہمیت کی حامل ہے، تاہم اکثر لوگ اپنی فکر کی بجائے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ سماج خراب ہے حالانکہ ہم جس سماج کو خراب کہہ رہے ہوتے ہیں اسی سماج کا خود بھی حصہ ہوتے ہیں، غالب اکثریت ایک ہی طرح کی غلطی میں مبتلا ہوتی ہے اور وہ یہ کہ لوگ اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کرتے ہیں، یہ سوچ ہمیں اصلاح سے بہت دور لے جاتی ہے کیونکہ اصلاح کا تعلق دوسروں کی بجائے اپنی ذات سے ہوتا ہے۔

مفتی تقی عثمانی اپنی کتاب فکر و عمل میں لکھتے ہیں کہ ہمارا اجتماعی مزاج کچھ ایسا بن گیا ہے کہ ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے ، ان کے عیوب تلاش کرنے اور ان کی برائیوں پر تبصرہ کرنے میں جو لطف آتا ہے وہ کسی حقیقی اصلاحی عمل میں نہیں آتا۔ حالات کی خرابی کا شکوہ ہمارے لیے وقت گذاری کا ایک مشغلہ ہے جس کے نت نئے اسلوب ہم ایجاد کرتے رہتے ہیں، لیکن ان خرابیوں کی اصلاح کے لیے کوئی بامعنیٰ قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے، اور اگر اصلاحِ احوال کے لیے کوئی جھنڈا بلند کرتے بھی ہیں تو ہماری خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ اصلاح کے عمل کا آغاز کسی دوسرے سے ہو۔

ہماری اصلاحی جدوجہد اس ذہنی مفروضے کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے کہ ہمارے سوا ساری دنیا کے لوگ خراب ہو گئے ہیں، اور ان کے اعمال و اخلاق کو درست کرنے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، یہ سب کچھ سوچتے اور کرتے ہوئے یہ خیال بہت کم لوگوں کو آتا ہے کہ کچھ خرابیاں خود ہمارے اندر بھی ہو سکتی ہیں، اور ہمیں سب سے پہلے ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، چنانچہ جو اصلاحی تحریک اپنے آپ سے بے خبر ہو کر صرف دوسروں کو اپنا ہدف بناتی ہے ، اس میں دوسروں کے لیے کوئی کشش اور تاثیر نہیں ہوتی، اور وہ محض ایک رسمی کارروائی ہو کر رہ جاتی ہے۔

معاشرے کے حالات اور لوگوں کے طرزِ عمل پر تنقید کا سب سے خطرناک اور نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو خود اپنی غلط کاری کے لیے وجہ جواز بنا لیا جاتا ہے ، چنانچہ یہ فقرہ بکثرت سننے میں آتا رہتا ہے کہ ’’یہ کام ٹھیک تو نہیں ہے، لیکن زمانے کے حالات کو دیکھتے ہوئے کرنا ہی پڑتا ہے‘‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے زمانے اور زمانے کی ساری برائیوں کا تذکرہ تو کرتے ہیں جیسے ہم ان تمام برائیوں سے معصوم اور محفوظ ہیں، لیکن اس تذکرے کے بعد جب عملی زندگی میں پہنچتے ہیں تو ان کاموں کا ارتکاب کرتے جاتے ہیں ، جن کی بُرائی بیان کرتے ہوئے ہم نے اپنا سارا زورِ بیان خرچ کیا تھا۔

اگر ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ہولناک آگ بھڑک رہی ہو، اور ہم یقین سے جانتے ہوں کہ اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ پورے ماحول کو لپیٹ میں لے لے گی تو کیا پھر بھی ہماراطرزِ عمل یہ ہوگا کہ اطمینان سے بیٹھ کر اظہارِ افسوس کرتے رہیں ، اور ہاتھ پائوں ہلانے کی کوشش نہ کریں؟ اس موقع پر بے وقوف سے بے وقوف شخص بھی آگ کی تفصیلات کو نمک مرچ لگا کر بیان کرنے سے پہلے اسے بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کو فون کرے گا ، اور خود بھی اسے بجھانے کا جو طریقہ ممکن ہوا اسے اختیار کرے گا، اور اگر آگ بجھتی ہوئی نظر نہ آئے تو کم از کم خود تو وہاں سے بھاگ ہی کھڑا ہو گا ، لیکن یہ کام کوئی بدترین دیوانہ ہی کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بجائے وہ آگ کا قصہ لوگوں کو سنا کر خود اسی آگ میں چھلانگ لگا دے۔

معاشرتی برائیوں کی جس آگ کا تذکرہ ہم دن رات کرتے رہتے ہیں عجیب بات یہ ہے کہ اس کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل یہی ہے کہ یہ تذکرہ کرنے کے بعد ہم خود بھی اسی میں کود جاتے ہیں ، ہم دن رات رشوت خوروں کو صلواتیں سناتے ہیں لیکن اگر کبھی وقت پڑ جائے تو خود رشوت لینے یا دینے میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، جھوٹ، خیانت اور حرام خوری کی مذمت ہمارے وردِ زبان رہتی ہے، لیکن اگر کبھی دائو چل جائے تو خود ان برائیوں سے نہیں چوکتے، اور اگر کبھی اس پر اعتراض ہو تو ٹکسالی جواب یہ ہے کہ سارا معاشرہ جس ڈھب پر چل رہا ہے ہم اس سے کٹ کر کس طرح رہ سکتے ہیں؟ کیا اس طرزِعمل کی مثال بالکل ایسی نہیں ہے کہ کوئی شخص بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر خود میں چھلانگ لگا دے؟

جب معاشرے میں برائیوں اور گمراہیوں کا چلن عام ہو جائے تو ایسے موقع کے لیے قرآن کریم نے ایک بڑی اصولی ہدایت عطا فرمائی ہیں جس سے غفلت کے نتیجے میں ہم موجودہ حالات سے دوچار ہیں، وہ ہدایت قرآن کریم ہی کے الفاظ میں یہ ہے: ترجمہ: ’’اے ایمان والو! خود اپنی خبر لو، اگر تم ہدایت کے راستے پر ہو تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ ‘‘ (سورۃ المائدہ آیت : ۱۰۵)

اس آیتِ کریمہ نے یہ ذریں حقیقت ارشاد فرمائی ہے کہ دوسروں کی بد عملی تمہاری بدعملی کے لیے وجہِ جواز نہیں بن سکتی ، نہ صرف اس کا تذکرہ کر دینے سے کوئی مقصد حاصل ہو سکتا ہے ، تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنی خبر لو ، اور کم از کم اپنی ذات کی حد تک بداعمالیوں سے پرہیز کرو ، اور اپنا سارا زور خود اپنے آپ کودرست کرنے میں خرچ کر دو۔ جن برائیوں سے فوراً بچ سکتے ہو ان سے فوراً بچ جائو ۔ جن سے بچنے کے لیے کسی کوشش اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے ، ان کے لیے کوشش شروع کر دو، اگر کوئی دوسرا شخص رشوت لے رہا ہے تو کم از کم خود رشوت کے گنہگار سے بچ جائو، اگر کوئی دوسرا خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے تو کم از کم خود خیانت سے اجتناب کرو، اگر کوئی دوسرا جھوٹ بول رہا ہے تو کم از کم تم سچائی کو اپنا شعار بنا لو، اگر کوئی دوسرا حرام خوری میں مبتلا ہے تو کم از کم تم یہ طے کر لو کہ حرام کا کوئی لقمہ میرے پیٹ میں نہیں جائے گا۔

یہی ہدایت ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دی ہے:
’’جب تم دیکھو کہ لوگ جذبہ بخل کی اطاعت کر رہے ہیں ، اور خواہشات نفسانی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ، دنیا کو ہر معاملے میں ترجیح دی جا رہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے پر گھمنڈ میں مبتلا ہے تو ایسے میں خاص طور پر اپنی اصلاح کی فکر کرو ، اور عام لوگوں کے معاملے کو چھوڑ دو۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے موقع پر عام لوگوں کی برائی کرتے رہنا مسئلہ کا کوئی حل نہیں ، مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہر شخص اپنی اصلاح کی فکر کرے ، اور اپنے آپ کو ان پھیلی ہوئی برائیوں سے بچانے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دے۔
ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جو شخص یہ کہتا پھرے کہ لوگ برباد ہو گئے تو درحقیقت سب سے زیادہ برباد خود وہ شخص ہے۔ (صحیح مسلم)

یعنی جو شخص ہر وقت دوسروں کی برائیوں کا راگ الاپتا رہتا ہو ، اور خود اپنے عیوب کی پروا نہ کرے، وہ سب سے زیادہ تباہ حال ہے، اس کے بجائے اگر وہ اپنی اصلاح کی فکر کرلے، اور اپنے طرزِ عمل جائزہ لے کر اپنی برائیاں دور کر لے تو کم از م معاشرے سے ایک فرد کی برائی ختم ہو جائے گی ، اور تجربہ یہ ہے معاشرے میں ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا ہے، اور ایک فرد کی اصلاح کسی دوسرے کی اصلاح کا بھی ذریعہ بن جاتی ہے ، معاشرہ درحقیقت افراد ہی کے مجموعے سے عبارت ہے ، اور اگر ان افراد میں اپنی اصلاح کی فکر عام ہو جائے تو دھیرے دھیرے پورا معاشرہ بھی سنور سکتا ہے۔ مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم معاشرے اور اس کی برائیوں کو ہر وقت کوستے ہی رہیں، اس سے نہ صرف یہ کہ کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات لوگوں میں مایوسی پھیلتی ہے، اور بدعملی کو فروغ ملتا ہے، ا س کے بجائے مسئلے کا حل قرآن و سنت کے مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے حالات کا جائزہ لے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت ڈال کر یہ دیکھے کہ اس کے ذمے اللہ اور اس کے بندوں کے کیا کیا حقوق و فرائض ہیں؟ اور کیا وہ واقعۃً ان حقوق و فرائض کو ٹھیک ٹھیک ادا کر رہا ہے؟

معاشرے میں جن برائیوں کا شکوہ اس کی زبان پر ہے، ان میں سے کن کن برائیوں میں وہ خود حصہ دار ہے۔ چونکہ ہم نے کبھی اس نقطۂ نظر سے اپنا جائزہ لینے کی کوشش ہی نہیں کی ، اس لیے یہ اجمالی بہانہ ہم دن رات پیش کرتے رہتے ہیں کہ چار سو پھیلی ہوئی بدعنوانیوں میں ایک اکیلا شخص کیا کر سکتا ہے؟ حالانکہ اگر انصاف کے ساتھ اس طرح جائزہ لے کر دیکھیں تو پتہ چلے کہ ان گئے گذرے حالات میں بھی ایک اکیلا شخص بہت کچھ کر سکتا ہے، جائزہ لینے سے معلوم ہو گا کہ ہماری بہت سی غلطیاں اور کوتاہیاں ایسی ہیں جن کا ہم فوری طور پر تدارک کر سکتے ہیں، اور کوئی نہیں جو اس تدارک کے راستے میں رکاوٹ بن سکے۔

بہت سی غلطیاں ایسی ہیں جن کا اگر فوری تدارک ممکن نہیں ہے تو کم از کم ان کی مقدار اور سنگین میں فوری طور پر سے کمی کی جا سکتی ہے ، اور بہت سی ایسی بھی ہیں جن کی تلافی اور تدارک میں کچھ دشواریاں ہیں، لیکن وہ دشواریاں ایسی نہیں ہیں جو حل نہ ہو سکیں، ان دشواریوں کو دور کرنے کی راہیں سوچی جا سکتی ہیں ، آخر اسی گئے گزرے معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو برائیوں کی اس بھڑکی ہوئی آگ میں بھی اپنا دامن بچا کر زندگی گذار رہے ہیں، ایسے لوگ اپنی پاکباز زندگی کی وجہ سے مر نہیں گئے، وہ بھی اس معاشرے میں زندہ ہیں ، بلکہ اگر حقیقت شناس نگاہ ہو تو بہت اچھی طرح زندہ ہیں۔

ان ساری باتوں کا احساس اسی وقت جاگ سکتا ہے جب دل میں اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہو جائے ، اور اسی فکر کے نتیجے میں اپنا جائزہ لینے کی عادت پڑ جائے ، جس دن ضمیر کی یہ طاقت بیدار ہو گئی اور اس کی آواز سننے کے لیے قلب و ذہن کے دریچے کھل گئے اسی دن صیح معنی میں اس حقیقت کا انکشاف ہو گا کہ معاشرے کی خرابی کا جو ہوا ہم نے اپنے سروں پر مسلط کر رکھا تھا، اور جس نے ہمیں اپنی صحت کی ہر تدبیر سے روکا ہوا تھا ، وہ کتنا بے حقیقت اور کتنا بے وزن تھا؟

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button