سماج میں پولیس کی اہم ذمہ داریاں
پولیس کا محکمہ یا ادارہ معاشرے کی کچھ انتہائی اہم ضرورتیں پوری کرنے کے لیے قائم کیا گیا ۔ معاشرے کو وحشت و دہشت ‘ عدم تحفظ ‘ بدامنی ‘ انفرادی یا اجتماعی مسلح یا غیر مسلح تنازعوں اور داروگیر سے پاک کرنا اس کا اولین فرض تھا‘ ناانصافی کی صورت میں انصاف مہیا کرنے پر یہ ایک معاون وسیلہ بھی تھا‘ زور والے کو روکنے اور کمزور کی مدد کرنے کا ابتدائی کام بھی ایک حد تک اسی ادارے کے فرائض میں شامل تھا اور ہے اور یہ سارے کام معاشرتی زندگی کے شروع ہوتے ہی کسی نہ کسی کو سرانجام دینے پڑے ہیں۔ وہ پولیس والے تھے‘ چوکیدار تھے‘ سردار تھے۔ محتسب تھے‘ کوتوال تھے‘ جو بھی تھے ان کے کام کی بنیادی نوعیت ایک سی تھی‘ اسے لاٹھی یا شوشک سے لے کر بکتر بند گاڑی اور انتہائی مہلک گن سے مسلح بھی کیا گیا تو بھی اسی نقطہ ٔ نظر سے کہ اسے ریاست میں عمرانی معاہدہ کی پاسداری میں ایک معاون ادارے کے طور پر کام کرنا ہے۔
آج دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں پولیس نہ ہو‘ کہیں بہت زیادہ کہیں برائے نام‘ کہیںبے پناہ اختیارات کی مالک‘ کہیں برائے نام اختیار والی‘ کہیں خوئے حکمرانی کہیں خیر کی ارزانی ‘ گویا اس کے ہر جگہ اپنے روپ ہیں‘ کہیں معاشرے کی تنظیم و ترتیب میں ایک مؤثر کردار ادا کرنے والی اور کہیں موجودہ تنظیم و ترتیب میں رخنہ اور شگاف ڈالنے والی‘ کہیں لوگ اس کے لیے سراپا سپاس کہیں، ہاتھ سنگ باری کے لیے اُٹھے ہوئے ‘ لیکن پولیس دو انتہاؤں میں ہی نہیں بٹی ہوئی اس میں ان دونوں کا امتزاج بھی ہے۔ قوموں کی زندگی میںجب مشکل مقامات آتے ہیں تب پولیس‘ عدلیہ ‘ انتظامیہ اور عوام کا کڑا امتحان شروع ہوتا ہے۔ کہا یہی جاتا ہے کہ اگر معمول کے حالات میں ادارے اچھی کارکردگی کے حامل ہوں تو ہنگامی صورتوں کو بھی عموماً خوش اسلوبی سے سنبھال لیتے ہیں ورنہ انہیں تنزل اور زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا اور بقول ساحر لدھیانوی یہ ادارے نئی فصل گل کے آنے تک‘ ضمیر ارض میں ایک زہر چھوڑ جاتے ہیں۔
پولیس بذات خود ایک حساس ادارہ ہے مگر یہ وہ ادارہ ہے جس سے بجا طور پر توقع کی جاتی ہے کہ وہ ریاست‘ حکومت اور حکومتی اداروں کے بارے میں عوام کے احساس اور اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنے دے گا۔ یہ معاشرہ میں اٹھنے والی منفی لہروں کو جذب کرکے سطح آب کو ہموار رکھنے میں اپنا متعین کردار ادا کرے گا اور یہ کردار خود بخود ادا کرے گا کیونکہ اس کے لیے کسی ایف آئی آر کے درج کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پولیس اپنے مخصوص فرائض اور لباس کے باعث ہمہ وقت لوگوں کی نظر میں رہتی ہے اور ہر لحظہ اس سے بہتری کی توقع کی جاتی ہے‘ خیر کی توقع کی جاتی ہے۔ اگر ایک چھوٹا سا بچہ ہجوم میں بچھڑ گیا ہے اور پریشان ہے اور پولیس والا آس پاس ہے تو اس سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ اسے اپنی تحویل میں لے کر ہر ممکن طریقہ سے اس کے وارثوں تک پہنچائے گا‘ یہی مثال معاشرے کے حوالے سے دی جا سکتی ہے۔
آج معاشرے میں پولیس کو مؤثر اور معاون ادارے کی حیثیت سے ایک خاص مرتبہ یا متعین مقام حاصل ہے۔ جس کے ابتدائی فرائض یہ ہیں کہ وہ ملکی قوانین کے نفاذ کا ذمہ دار ہے۔ کہیں پر آزادانہ طور پر اور کہیں ضمنی طور پر اس کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ سے ہے۔ اگر ایک طرف اسے اعلیٰ حکمرانوں کی حفاظت کرنا ہے تو دوسری طرف اسے ایک چھوٹی سی بستی کی زمین بدنیتی سے قبضہ کرنے کی نیت سے حملہ آور ہونے والوںسے بھی بچانا ہے۔ اسے سکولوں کے بچوں خصوصاً لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے باہر بدقماش عناصر پر بھی نظر رکھنا ہے، بس اور ویگن میں جیب تراش کی کارروائی میں بھی متاثرہ فرد کا معاون بننا ہے‘ کہیں اسلحہ کی کھلی نمائش کرنے والوںکو روکنا ہے تو کہیں سائلنسر کھول کر موٹر سائیکل سواروں کی سڑکوںپر بدتمیزی کو بھی روکنا ہے‘ پرہجوم بازاروں میں اچکوں سے خواتین کو تحفظ دینا ہے تو بینکوں سے بھاری رقوم نکلوا کر لے جانے والوں کی حفاظت کی توقع بھی اسی سے کی جاتی ہے۔ ملک کی شاہراہوں پر شب و روز رواں ٹریفک کو بھی رواں رکھنا ہے تو حادثے کی صورت میں جائے واردات پر پہنچ کر مرحومین یا زخمیوں کو ہسپتال بھی پہنچانا ہے‘ خود کشی کی نیت سے گولیاں کھانے والوںکا معاملہ بھی دیکھنا ہے اور جلتے چولہوں پر پھینک کر ہلاک کرنے کی انسانیت سوز حرکت کرنے والوں پر بھی توجہ دینا ہے ۔
مساجد‘ امام بارگاہوں ‘ بسوں اور اڈوں پر بم پھٹیں یا کلاشنکوف کی گولیاں برسیں پولیس کی ذمہ داری ہے کہ یہ حادثات نہ ہونے دے‘ اگر ہو گئے تو ملزموں کو پکڑے اور بعض اوقات خود بھی گولیوں کا نشانہ بن جائے۔ مالیہ وصول نہیں ہوتا۔ سرکاری بقایاجات کی وصولی میں کچھ لوگ مزاحم ہیں ‘ قرضوں کی بازیابی نہیں ہوتی۔ ناجائز تجاوز کرنے والوں نے متاثرین کا ناک میں دم کر دیا ہے‘ بھینسوں نے گلیاں بند کر دی ہیں‘ سست رفتار گاڑیوں نے وہ سڑک بندکر دی ہے جس پر ان کا چلنا ممنوع ہے تو پھر یہ کام بھی پولیس کے ذریعے ہی ہوتے ہیں۔ انتخابات کروائیں‘ بنیادی جمہوریت کے‘ بلدیہ کے یا صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے تو پولیس کو بھی ایک کردار اداکرنا ہوتاہے۔ ذرا اونچ نیچ ہو جائے تو الزام پولیس پر ‘ ذمہ داری پولیس کی۔
جیل میں ملزم لے جائے جاتے ہیں‘ انہیں پیشیوں پر عدالت لانا ہے تو یہ کام بھی پولیس کا اور اگر واردات میں کوئی موقع پر پکڑا گیا تو اسے بھی تھانے تک لے کر جانا پولیس کاکام ہے ۔جو مقدمات تھانے میں درج ہیں اور جن کا تعلق فوجداری معاملات سے ہے تو ان کو عدالت تک لے کر جانا اورمقدمے کی پیروی کرنا بھی پولیس کا کام ہے۔ فوجداری انصاف ‘ آخری فیصلہ تو عدالت دیتی ہے مگر اس سے پہلے کے سارے مراحل پولیس کو ہی طے کرنا پڑتے ہیں جبکہ اس پھسلن میں اسے خال خال ہی کامیابی ہوتی ہے کیونکہ ایف آئی آر سے لے کر عدالت تک‘ اس میں دو چار نہیں سینکڑوں ہی سخت مقام آتے ہیں۔