کورونا ویکسین کے غیر مؤثر ہونے کا تاثر
دنیا کو کورونا کی نئی لہر کا سامنا ہے، مغربی ممالک اس بار بھی کورونا کا ہدف ہیں، فرانس میں ایک دن میں تین لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اسی طرح دیگر مغربی ممالک میں بھی کورونا شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ عالمی ادارہ صحت اور دنیا بھر کے طبی ماہرین نے کورونا سے بچاؤ کیلئے ویکسین کو لازمی قرار دیا اور کہا گیا کہ لوگ جلد از جلد ویکسین لگوا لیں کیوں کہ کورونا سے محفوظ رہنے کیلئے ویکسین واحد حل ہے، اس انتباہ کے بعد دنیا کی غالب اکثریت نے ویکسین لگوا لی ، دنیا میں ویکسن لگوانے والوں کی اوسطاً شرح 75فیصد سے زیادہ بتائی جا رہی ہے تاہم اس کے باوجود لوگ کورونا سے محفوظ نہیں ہیں اب 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو بوسٹر ڈوز دی جا رہی ہے۔
کورونا کے کروڑوں متاثرین سامنے آنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ویکسین لگوانے والے اور نہ لگوانے والے برابر متاثر ہو رہے ہیں حالانکہ طبی ماہرین نے کہا تھا کہ ویکسین لگوانے کے بعد لوگ کورونا سے محفوظ ہو جائیں گے۔ پاکستان میں بھی ویکسین لگوانے کیلئے حکومت نے مہم چلائی اور ابھی بھی عوام سے کہا جا رہا ہے کہ ویکسین لگوا لیں، لیکن کیا ضمانت ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد لوگ کورونا سے محفوظ ہو جائیں گے؟
کورونا کے خلاف ویکسین کے غیر مؤثر ہونے کے بعد بعض طبی ماہرین نے کہا ہے کہ تاحال کورونا کا علاج دریافت نہیں ہوا ہے، کورونا ویکسین تو قوت مدافعت بڑھانے کیلئے اس خیال سے لگائی جا رہی ہے کہ جب تک کورونا کا علاج دریافت ہوتا ہے تب تک ویکسین سے فائدہ اٹھا لیا جائے۔ ویکسین لگوانے کے باوجود کورونا میں اضافے کا واضح مطلب یہ ہے کہ کورونا کا مکمل اور شافی علاج دریافت ہونے تک دنیا ہر کچھ عرصہ کے بعد اس سے دو چار ہوتی رہے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ کورونا کو آئے دو سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اس دوران عالمی ادارہ صحت اور عالمی طبی ماہرین نے کورونا علاج کے جو دعوے کئے وہ عملی صورت اختیار نہیں کر سکے، اسی بنیاد پر سازشی تھیوریز کو تقویت مل رہی ہے۔ بعض معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس دنیا کی معیشت کو تبدیل کر کے رکھ دے گا، ترقی پذیر ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جائیں گے جبکہ پسماندہ ممالک کے کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا البتہ ترقی یافتہ ممالک کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ بعض احباب کہتے ہیں کہ کورونا جلد ختم ہونے کیلئے نہیں آیا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ کورونا کے نئے مریضوں کا سامنا آنا اس مؤقف کو تقویت دیتا ہے۔
کورونا وائرس سے اب تک لاکھوں لوگ موت کی منہ میں چلے گئے ہیں، مزید کتنے لوگ موت کے منہ جاتے ہیں کوئی نہیں جانتا، یوں لگتا ہے کہ کورونا عالمی ادارہ صحت اور عالمی طبی ماہرین کیلئے چیلنج بن چکا ہے، اس سے نکلنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے مگر ہر ملک اپنی ویکسین بنا کر خود کو محفوظ سمجھ رہا ہے، کورونا کی نئی لہر نے مگر تمام مفروضے غلط ثابت کر دئیے ہیں اب معلوم ہو رہا ہے کہ کوئی ملک بھی محفوظ نہیں ہے، ایسی صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس بارے جن تحقیقات کا اعلان کیا تھا اس کے نتائج سامنے لائے جائیں، کیونکہ دنیا کورونا کے حوالے سے تاحال مخمصے کا شکار ہے۔
اگر کورونا خود ساختہ ہے اور عالمی ادارہ صحت کے پاس اس بارے کوئی شواہد موجود ہیں تو وہ دنیا کے سامنے پیش کیوں نہیں کئے جا رہے ہیں؟ محض یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ لوگ عالمی ادارہ صحت کی ہداہات پر عمل کریں، عالمی ادارہ صحت کو اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھانی ہوں گی، کیونکہ انسانیت کی حفاظت اس کے فرائض میں شامل ہے۔
طبی ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والا دور کورونا کے ساتھ گزارنا ہو گا، اور وہی ممالک کامیاب ہوں گے جو بہترین حکمت عملی اپنائیں گے۔ کسی کی پالیسی اپنانے کی بجائے ہر ملک اپنے وسائل کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے تو مفید ثابت ہوگا جبکہ انفرادی سطح پر ضروری ہے کہ اپنے اوپر کورونا کا خوف سوار کرنے کی بجائے اس کا مقابلہ کریں کیونکہ خوف کی وجہ سے قوت مدافعت گر جاتی ہے جو اکثر لوگوں کی موت کی وجہ بھی بن جاتی ہے۔
سو کورونا کو دیگر بیماریوں کی طرح ایک بیماری کے طور پر لیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے بہترین غذا لیں یہ کورونا کاسے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ ہے۔کورونا کی خوفناک شکل معیشت کا متاثر ہونا جو عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے، عام آدمی تو اس سے متاثر ہوتا ہے جو حکومت کی طرف سے پالیسی اپنائی جاتی ہے، وزیر اعظم عمران خان کورونا سے نمٹنے کیلئے بہترین پالیسی بنانے کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن جب ہم عام شہری کی زندگی اور مجموعی مہنگائی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کی نسبت مسائل کافی حد تک بڑھ گئے ہیں۔