کیا صدارتی نظام مسئلے کا حل ہے؟
بادشاہت سے انسانوں کا فرار کیسے ممکن ہوا، تاریخ میں اس کی دو شہادتیں ملتی ہیں۔
اول، جب کرہ ارض پر خلافت قائم ہوئی۔ نبوت محمدی صل اللہ علیہ وسلم کے بعد انسانوں پر قائم ہونے والی انسانوں کی یہ پہلی انسانی حکومت تھی۔ چشم فلک نے آج تک انسانوں کی اس سے بہتر حکومت نہ دیکھی تھی اور نہ آج تک دیکھی ہے۔ اس نظام میں خلیفہ کی حیثیت کسی بادشاہ یا مطلق العنان سربراہ کی نہ تھی۔ سادگی، تقوی، قانون کے تابع، عوام کو جوابدہی، عدالتوں کا سامنا اور مشاورت کا عمل، خلافت کے رہنما اصول تھے۔
دوم، بادشاہت سے انسانوں نے بتدریج نجات پائی اور جمہوریت کی منزل حاصل کی۔ مغرب میں میگنا کارٹا ( 1215ء) جیسے معاہدے اس جدوجہد کی خشت اول سمجھے جاتے ہیں، بعد ازاں اٹھارویں صدی میں جیکوئس روئسو کے جمہور نظریات نے یورپی عوام کو متاثر کیا اور مغرب میں بادشاہوں کا سورج غروب ہونے لگا۔ انیسویں صدی میں جمہوریت کی بالا دستی کا سورج طلوع ہوا اور آج سوا دو سو سال گذرنے کے بعد بھی وہ نصف النہار پر موجود ہے۔
اس تمہید کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ انسانوں نے ایک لمبی جدوجہد کے بعد جس عمرانی معاہدے پر اتفاق کیا ہے اس میں بنیادی حقوق کے تحفظ کی خاطر مطلق العنان اقتدار سے نجات ضروری قرار پایا ہے۔
وفاقی ریاستوں کی تشکیل بھی اسلیئے ہوئی تا کہ علاقائی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ طرز حکمرانی کے اعتبار سے صدارتی، پارلیمانی اور نیم صدارتی و نیم پارلیمانی نظام ہائے حکومت ہر قوم کے مزاج اور ضرورت کے تحت ترتیب پائے ہیں۔ نظام کوئی بھی ہو اصل بات یہ دیکھنا ہے کہ اس نظام میں انسانی جان و مال کے تحفظ کی کیا ضمانت ہے اور یہ کہ جن حقوق کو بنیادی انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے ان کی کتنی پاسداری ہو رہی ہے۔
آزادی کے بعد وطن عزیز کو پارلیمانی نظام حکومت ورثے میں ملا۔ پارلیمانی نظام کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں وزیر اعظم عوام کے منتخب نمائندوں یعنی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ ایگزیکٹو اتھارٹی بظاہر وزیر اعظم مگر درحقیقت پارلیمنٹ کے پاس ہوتی ہے۔ پارلیمان قائمہ کمیٹیوں کے ذریعے انتظامیہ پر نگاہ رکھتی ہے، ہر وزارت اور اسکا سربراہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے ان قائمہ کمیٹیوں کو جوابدہ ہوتا ہے۔
پارلیمانی نگرانی کے اصول پر پارلیمانی نظام استوار ہے لیکن بدقسمتی سے یہ نظام اپنی صحیح روح کے مطابق پاکستان میں رو بہ عمل نہیں ہے۔ اس وجہ سے عوام دن بدن اس سے بد ظن ہوئے ہیں۔ آج وطن عزیز میں صدارتی نظام حکومت قائم ہونے کی افواہیں گردش میں ہیں تو عوام میں اس کے نفاذ کے حوالے سے گرمجوشی دیکھی جا سکتی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ لوگ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی بڑی تعداد سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، انکے نزدیک یہ وسائل کا زیاں بھی ہے۔ دوسری طرف صدارتی نظام کی حمایت کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح حکمرانی کے منصب پر بیٹھا شخص ایم این ایز کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہو گا اور وہ آزادی کے ساتھ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر سکے گا۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عوام جس کو حکمرانی کے لائق سمجھیں گے وہ بلا واسطہ اس کو منتخب کر سکیں گے۔
اس دلیل میں وزن ہے لیکن جہاں تک بلا شرکت غیرے مکمل اختیار کے ساتھ حکومت کرنے کا تعلق ہے تو ایسا تجربہ عصر حاضر میں کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ امریکہ میں جو صدارتی نظام کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہے وہ چیک اینڈ بیلنس اور تفریق اختیارات کے اصولوں پر چل رہا ہے۔ مادر پدر آزادی بادشاہت کے علاوہ کہیں نہیں ہے۔ آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اگر حکمران کو من چاہی حکومت کرنے دینگے تو وہ من مانی کرے گا۔ مطلق اختیار تباہی کا باعث بنتا ہے، انسان کو خدا بنتے دیر نہیں لگتی۔
جمہور حکمرانی کا تقاضا ہے کہ نظام میں توازن ہو، اختیار ہو تو ساتھ احتساب بھی ہو۔ بادشاہت اسلئیے ناپسندیدہ قرار پائی ہے کہ اس میں حکمران کلی اختیار کا مالک ہوتا ہے، وہ بیک وقت انتظامی سربراہ ہونے کیساتھ شارع قانون اور اعلی عدالت بھی بن جاتا ہے اور جوابدہ وہ کسی کو نہیں ہوتا۔
ہماری تاریخ ہے کہ ہم نے صدر، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں توازن پیدا کرنے کیلئے آئینی شق 58- 2B متعارف کرائی مگر یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ 1988 سے لیکر 1996 تک چار مرتبہ یہ اختیار صدر صاحبان نے استعمال کر کہ منتخب قیادت کی چھٹی کرائی اور اسمبلیاں توڑ ڈالیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جنہیں پارلیمان کا حصہ ہو کر بھی پارلیمنٹ کو عزت دینا گوارا نہیں ہے، کیا صدارتی نظام میں پارلیمان کے کردار کو تسلیم کیا جائے گا اور اس کو اہمیت دی جائے گی؟
امریکہ میں ‘سینیٹ’ اعلی تقرریوں کی منظوری دیتا ہے کیا ہم اس اسلوب پر حکومت چلا سکیں گے اور تقرریوں میں پارلیمینٹ کی شراکت برداشت کر سکیں گے ۔ امریکہ میں قانون سازی کا حق ایوان نمائندگان اور سینیٹ کا ہے، انکا یہ حق تسلیم کیا جاتا ہے اور صدر غیر ضروری دخل اندازی سے گریز کرتا ہے۔ ہماری تاریخ ہے کہ ہم نے پارلیمنٹ کو ہمیشہ ربڑ سٹیمپ بنا کر رکھا ہے، اس پس منظر میں کیا صدارتی نظام کے اندر ہم پارلیمنٹ کی جداگانہ حیثیت کو ہضم کر پائیں گے، کیا ہمارے رویوں سے نظام ڈیڈ لاک کا شکار تو نہیں ہو جائے گا؟
یہ ہیں وہ زمینی حقائق جن کو پیش نظر رکھے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ صدارتی نظام کا تجربہ مقصود ہو تو پہلے چند اہم سوالات کے جوابات تلاش کرنے چاہئیں۔
سوال نمبر 1: وہ کیا وجوہات جن کی وجہ سے پارلیمانی نظام ترک کرنا ضروری ہے اور وہ کیا مقاصد ہیں جن کی تکمیل کیلئے صدارتی نظام اپنانے کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے؟
سوال نمبر 2: پارلیمانی نظام کے خاتمے اور صدارتی نظام قائم کرنے کے لیے قومی اتفاق کیسے پیدا کیا جائے گا؟
سوال نمبر 3۔ صدارتی نظام کا خاکہ کیا ہو گا؟ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کیا ہونگے اور ان کے مابین توازن کسطرح قائم کیا جائے گا؟
سوال نمبر 4: صدارتی نظام کے ذریعے گڈ گورنینس کا حصول کیسے ممکن ہو گا؟ اور عوام کے ذریعے، عوام کیلئے، عوام کی بہترین حکومت کیسے قائم ہو گی؟؟
ان سوالوں کا جواب تلاش کر لیں گے تو زمینی حقیقتوں، ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق سود مند نظام حکومت قائم کرنے میں نہایت آسانی ہو گی۔